Sunday 28 January 2024

تاریخ ہزارہ گجراں

ہزارہ گوجراں:-
( تحریروتحقیق
 محمدامجد چوہدری )

مغلیہ عہد میں ہزارہ (جو آج 7 اضلاع پر مشتمل ہے) ہزارہ گوجراں کہلاتا تھا، جیساکہ اسے علامہ ابوالفضل آئین اکبری میں بیان کرتا ہے۔ برطانوی دور کے پہلے بندوبستی آفیسر میجر ویس کا کہنا ہے کہ زیریں ہزارہ میں دریائے سندھ (تربیلہ) سے ضلع کی جنوبی حد (ٹیکسلا) تک گوجر مالکان اراضی  ہیں۔ وہ لکھتا ھے گوجر ہزارہ کے قدیم اور اکثریتی قبائل ہیں۔ ضلع میں ان کی تعداد تمام قبائل سے زیادہ ھے اور ریشو 15.84 فی صد سب سے ہائی ھے۔ 
 رپورٹ بندوبست 1872 کے مطابق ہزارہ کی کل آبادی آں وقت 343,505 ریکارڈ ہوئی۔ 

کھتری: 12,320، فیصد  3.50 
دیگر:    4,311 ،  فیصد  1.50 
"""""""""""""""""""""""""""""""""""""
سید:     11,700،  فیصد 3.34
جدون:  15,711،فیصد 4.57     
سواتی: 21,334، فیصد 6.21
تنولی:  21,732،  فیصد 6.32
دیگر:    16,748، فیصد  4.87
ڈھونڈ: 14,412،  فیصد 4.19
کڑلال:  10,734، فیصد  3.12
اعوان:  50,564، فیصد 14.72
گوجر:  54,420، فیصد 15.84
دیگر:  109,519،فیصد 31.88
 (دیگر میں کسب گر اور کم تعداد والے قبائل شامل ہیں)

 گوجر ضلع کی سب بڑی اکثریتی آبادی ہیں۔ اپنی مذکورہ رپورٹ میں وہ لکھتا ھے کچھ دیہات  میں ان گوتراؤں کے گوجر مختلف مقامات پر آباد ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ضلع ہزارہ میں انکی جو گوترائیں ریکارڈ کی گئیں ہیں وہ حسب ذیل ہیں:-

چھوکر، کھٹانہ، کسانہ، کالس، گورسی، چیچی، دھیدڑ، پوسوال،  سوہا، ٹھیکریہ، مونن، بھوملہ، آلماں، بانٹھ،  بانیاں، باگڑی، بھنڈ، باھروال، بوکن، بھڈانہ، بسویہ، پھلڑہ، ٹھیکریہ، چیچی، چوہان، ڈھنیڈے، ڈوئی، ڈوگے۔ جبلی (جبری)، جاگل، سرادھنہ، سیر ، کھاری، میلو، موٹے، مونن، پسوال، ریانہ، بجاڑ اور رجوعہ وغیرہ۔

اب بندوبست کے بعد قبائل کی نقل و حرکت اور آبادکاری, ہجرت سے بہت فرق پڑا ہے خاص کر تقسیم کے وقت بہت سے گوجر ریاست جموں و کشمیر سے آ کے ھزارہ میں بس گئے ہیں۔

ہزارہ گوجراں میں گوجروں اور انکی  گوتراؤں پر آباد دیہات کچھ کی تفصیل حسب ذیل ہے:-

آلماں، بانٹھ، بانیاں بٹگرام،  بانیاں مانسہرہ، باگڑیاں، بجاڑیاں، بھنڈ، باھروال، بوکن، بھڈانہ، بسویہ، پھلڑہ، ٹھیکریہ، چیچیاں، چوہان، دھدڑ، ڈھنیڈے، ڈوئی (آبی)، ڈوئی (خشکی)، ڈوگہ، کالس، گوجرہ، گجرات حویلیاں، گوجری بائیاں، گوجر درہ، گوجری مساح، گوجری قلندراباد، گوجر موہڑہ، گوجر نلہ، جبلی (جبری)، جاگل، سوہا، سرادھنہ، سیر شرقی، سیر غربی، کہولیاں، کھاریاں، میلم، موٹیاں، مونن، پنڈگوجراں، پسوال، پسوال میاں، پسوال کوٹھیالہ، ریانہ، رجوعہ اور کچھ ایسے گاؤں بھی ہیں جو تا حال ھماری دانست میں نہیں.
 واضح رہے کہ صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات کے بعد ہزارہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں گوجروں کی آباد کاری سب سے زیادہ ہے میجر ویس لکھتا ھے یوں تو گوجر ہزارہ میں ہر جگہ آباد ہیں مگر تحصیل ہری پور میں مالکان اراضی کے طور پر وہ سب سے زیادہ ہیں اور میدان ہری پور کا ایک tract گوجر پٹی کہلاتا ہے۔ ہزارہ میں انارکی کا زمانہ کم و بیش دوسو سال تک جاری رہا ھے اور ہزارہ گوجراں کا وہ علاقہ کہ جس کے گوجر بلا شرکت غیرے مالک تھے وہ آج چوتھائی حصہ کے طور گوجر پٹی کی صورت میں ان کی ملکیت رہ پایا ہے۔ مندرجہ بالا حقائق من گھڑت نہیں ہیں جو ان کتابوں سے اخذ کئے گئے ہیں۔ 

(ماخذات)

- تواریخِ ہزارہ از مہتاب سنگھ 
تواریخ ہزارہ از محمداعظم بیگ 
(ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر بندوبست ہزارہ )
- شاہان گوجر از عبدالمالک خان کھوڑوی  
- تاریخ ہزارہ (ڈاکٹر شیر بہادر پنی)
- تاریخ ہزارہ  (راجہ ارشاد خان)
گزٹئیر آف دی ہزارہ ڈسٹرکٹ  1883-84
- ہزارہ گزٹئیر 1907
- ہزارہ بندوبست رپورٹ 1874
- پنجاب کاسٹس، ڈینزل ابٹسن 
-دی پنجاب انڈر دی مغل از محمد اکبر 
- آئیں اکبری از علامہ ابوالفضل


Wednesday 13 July 2022

An Inspirational and Motivational Story of Ch. Abid Munir Zahid sb

 الحمد للّٰہ رب العالمین "چائے والا ڈاکٹر"

اہلیہ صفورہ زاہد کے تین چار سال قبل کیسنر کا شکار ہونے کے بعد ہمارے بیٹے ڈاکٹر عابد منیر نے اپنے حصے کا بوجھ میرے کندھوں سے کم کرنے کے لیے راولاکوٹ ڈی چوک میں تندوری چائے کا ڈھابہ لگایا وہ صبح سے عصر تک میڈیکل کالج میں پڑھائی کے بعد اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے راولاکوٹ کی سخت سردی میں سڑک پر چائے بیچتا ۔
ساتھ پڑھنے والوں نے کہا یار عابد تم کل کو ڈاکٹر بننے جارہے ہو اس لیے چائے کیوں بیچتے ہو ؟یہ تمھارا مقام نہیں !
جس پر عابد منیر کا جواب تھا کہ وہ جائز ذریعے سے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایسا کررہا ہے.
اس دوران علاج معالجے کے بعد جب اہلیہ کی طبیعت کچھ سنبھلی تو ہم پوری فیملی عابد منیر کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کے پاس گئے اور اس کے ڈھابے سے اسے زبردستی پیسے ادا کرکے چائے پی اور اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے اسے ویلڈن کہا 🙂
عابد ایم بی بی ایس کرنے گیا تو میرے بعض ہم وطن "بہی خواہوں"نے اس کی ہر طرح کی سکالرشپ ہر طرف اور ہر راستے سے رکوائی ہمیں مقدمات میں گھیرا گیا ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب ہمیں آزاد کشمیر سے پشاور تک مقدمات کی چکی میں پیسا گیا اس دوران عابد منیر نے لنڈے کے کپڑے پہن کر کم کھاکر پیدل چل کر اور سائیکل چلا کر اپنی تعلیم کا سفر جاری رکھا۔
ماں کی بیماری کے سبب ہمیں امید نہیں تھی کہ جب عابد منیر کو ڈگری ملے گی تو اس کی ماں اس کے ساتھ ہوگی یا نہیں !
مگر اللہ تعالیٰ کی کریم ذات نے یہ دن دیکھنا نصیب کیا کہ عابد منیر کے سر پر اللہ تعالیٰ نے ڈگری سجائی تو اس نے عزت افزائی اور شکریے کے لیے یہ کیپ اور گاؤن ہم والدین کو پہنا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا ....
An Inspirational and Motivational Story of Ch. Abid Munir Zahid sb