Friday 24 July 2015

Gujjar role in world history

گجر قوم کے دنیا کی تاریخ میں انمٹ نقوش۔۔۔ چودھری ظفر حبیب گجر

اسلام علیکم۔۔۔ ایک عجیب رسم ہے ہماری کہ ہم اپنا قد اونچا کرنے کے لیے دوسروں کی ٹانگیں کھینچنا ضروری سمجھتے ہیں ۔۔۔ ایسا ہی کچھ لوگ تاریخ کے ساتھ بھی کرتے ہیں کہ اپنی بڑھائی بیان کرنے کے لیے دوسری اقوام پر کیچڑ اچھالنا ضروری سمجھتے ہیں ۔۔
لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ گجر کون ہیں؟؟ گجر لفظ کے معنی کیا ہیں؟؟؟ اور گجر قوم کا ہندوستان کی تاریخ میں کردار کیا ہے ؟؟؟ اور پھر خود ہی ان سوالوں کے اپنی مرضی کے جوابات بھی دینا شروع کر دیتے ہیں ۔۔ بنا زمینی حقائق اور تحقیق کے ۔۔۔
ہم کسی سے یہ سوال نہیں کرتے کہ وہ کون ہیں اور ان کا کردار کیا ہے البتہ ان سوالات کے جوابات ضرور دیں گے ۔۔۔۔
ہم اگر سنٹرل ایشیاء سے شروع ہوں اور افغانستان سے ہوتے ہوئے انڈیا اور نیپال تک جاتے ہیں تو ہم کو ہزاروں شہر، قصبے دیہات گجر قوم یا اس کی گوترہ کے نام پر آباد ملتے ہیں اور یہ آج سے نہیں صدیوں سے انہی ناموں سے پکارے جاتے ہیں جو اس بات کی سب سے بڑی نشانی ہے کہ گجر اس خطے میں بہت بڑے علاقے میں حکمران رہے ہیں 
اسی طرح اگر ہم سنٹرل ایشیاء سے یورپ تک جاتے ہیں تو ہم کو گجر قوم کے قدموں کئ نشانات ملتے ہیں جیسے کہ گجرستان (جارجیا) چیچنیا البانیہ وغیرہ اور سپین میں گوجر ٹاؤن کی آج بھی موجودگی اس بات کی چیخ چیخ کر گواہی دیتی ہے کہ گجر کسی مخصوص علاقہ یا خطہ میں نہیں پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں اور یہ کوئی ایک قوم نہیں بلکہ ایک نسل کا نام ہے اور اسی طرح کرد قبائل میں گجروں کی موجودگی مشرقِ وسطی میں گجر قوم کے ہونے کی دلیل ہے ۔۔ 
آج بھی آسٹریا میں گوجر ویسٹ مینجمنٹ کمپنی اور ٹیکساس امریکہ میں چارلس گوجر ایسوسی ایشن اس کی گواہ ہیں 
www.gojer.at
www.cgojar.com
اسی طرح کے اور بہت سے حوالہ جات ہیں جو آج کے موجودہ دور میں بھی مشرقی اور شمالی یورپ میں عام ملتے ہیں نیپال کے گجر ٹاؤن سے سپین کے گوجر ٹاؤن تک ہمارے قدموں کے نشان ہماری عظمتوں کے گواہ ہیں 
ہم نے شہروں کو آباد کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو زبان بھی دی جس کو آج گوجری بولا جاتا ہے جس سے دنیا کی کئی زبانوں نے جنم لیا اور ایک بہترین زبان اردو بھی گوجری کی بیٹی ہے جس پر کئی اردو دان آج متفق ہیں اسی گوجری کو دکنی اور قنوجی کھڑی بولی اور راجستھانی کا نام بھی دیا گیا 
گجروں نے دنیا کو آباد کرنے اور ایک زبان دینے کے ساتھ گرجارا آرٹ، گوجری راگ اور گو جر ڈانس بھی دیا اسی کے ساتھ گجر لباس اور گوجر زیور بھی اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں 
اگر کوشان یا کسانہ دورِ حکومت پر تحقیق کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ گجروں کے زمانے میں سنٹرل ایشیاء سے قنوج تک ایک ہی حکومت تھی اور جس کے تین دارلحکومت تھے قنوج، پپشاور اور موجودہ سمرقند ۔۔ کوشان دور میں آرٹ کو ایک نئی پہچان ملی اسی کے ساتھ پورے خطے کو ایک زبان ملی جو آج بھی مختلف لہجوں میں پورے برصغیر میں بولی جاتی ہے اور اردو کے لہجے میں ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday 4 July 2015

Thanks to gujjar

اسلام علیکم ۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی کے بعد جب گجروں کو بحیثیت قوم پیچھے دھکیل دیا گیا اور گجر ہونا جرم بن گیا ایسے میں جب نفسانفسی کا دور تھا تو چند پڑھے لکھے نوجوان (جن میں سرفہرست مولوی فتح دین مرحوم کا نام تھا) ان کے علاوہ دودھ بیچنے والے اور بکریاں چرانے والے گجروں نے اس قوم کے نام کو زندہ رکھا۔ اس دور میں جب لوگ زمین جائیداد یا نوکری کے لالچ میں اپنی قوم کا نام بدل رہے تھے یا اپنی گوترہ کو دوسری قوموں میں بدل رہے تھے اس وقت انجمن گجراں مرکزیہ اور یہ دودھ فروش سینہ تان کر کھڑے ہوئے اور خود کو گجر کھلوایا۔۔ آج جب ہم اس برے وقت سے نکل آئے ہیں تو ہم کو اپنی یہی پہچان بری لگتی ہے جن لوگوں کو سلام پیش کیا جانا چاہیے تھا ہم ان پر ہی اعتراض کرتے ہیں جب اپنی گاڑی پر کوئ گجر نہیں لکھتا تھا اس وقت ریڑھے والے اور رکشہ چلانے والے نے خود کو گجر لکھا آج یہی پہچان بری لگتی ہے ہم کو ۔۔۔ ہم ان سب لوگوں کو جنہوں نے ان تنظیموں کو بنایا اپنا وقت اپنا پیسہ دیا ہم ان کو سلام پیش کرتے ہیں اور ان تمام لوگوں کے مشکور ہیں جنہوں نے اپنے ریڑھے اور رکشہ کے پیچھے گجر لکھ کر ہمارے نام کو مٹنے نہ دیا ان تمام بزرگوں کے بےحد مشکور ہیں جنہوں نے اپنے پروفیشنل کرئیر کو پس پشت ڈال کر ہماری پہچان کو باقی رکھا وہ تمام سٹوڈنٹ لیڈر جو تمام بڑی جماعتوں سے لڑتے رہے ۔۔۔ وہ تمام حضرات جو اپنے قلم سے اس قوم کی بقاء کی جنگ لڑتے رہے ہمارے محسن ہیں ۔۔۔ہم کو آپ سب پر فخر ہے اللہ تعالی آپ سب کو جزائے خیر عطاء فرمائے اور جو ہم سے جدا ہو گئے ان کی مغفرت فرمائے آمین 
چودھری ظفر حبیب گجر 

Thursday 2 July 2015

کیا خوب لوگ ہیں ہم

اسلام علیکم کیا خوب لوگ ہیں ہم بھی تنقید برائے تنقید کے کچھ آتا ہی نہیں ہے ہم ۔۔ ہم اچھے ہیں باقی سب برے ہیں جو ہم کر سکتے ہیں وہ کوئ اور نہیں کر سکتا جتنے مخلص ہم ہیں کوئ اور نہیں ہو سکتا جو ذمہ داری ہم نبھا سکتے ہیں وہ کوئ اور پوری نہیں کر سکتا ۔۔۔ کیا خوب سوچ ہے ہماری۔۔۔ 
معذرت کے ساتھ میں آج ایک گجر رسالہ کا اداریہ پڑھ رہا تھا محترم ایڈیٹر صاحب نے جس انداز میں اپنی اور اپنی تنظیم کی تعریف کےُپل باندھے اور باقی گجر تنظیموں کی پگڑیاں اچھالی میرا دل چاہا کہ فون کر کے داد دوں ان کو۔۔ 
ہم کب اس سوچ سے آگے نکلیں گے ؟؟؟ کب تک تنقید برائے تنقید کریں گے ؟؟؟ کب تک ہم خود کو عقل کلُ اور دوسروں کو بیوقوف سمجھیں گے ؟؟؟ 
سوال یہ ہے کہ ہم اور ہمارا ذاتی کردار کیا ہے اس حوالہ سے ۔۔ ہم خود لفظ گجر اور گجر کی تکریم کرتے ہیں ہم کیوں خود پر بھروسہ کرنا نہیں سیکھتے ؟؟؟ کیوں ہر وقت ہم گلہ کرتے ہیں کہ جی گجر یا گجر تنظیمیں ہمارے لیے کچھ نہیں کرتے
میرا سوال یہ ہے کہ ہم خود کیا کرتے ہیں ؟؟؟ ہم اپنے بھائیوں کی کتنی مدد کرتے ہیں ہم اپنا تعارف کیسے کرواتے ہیں لوگوں سے ؟؟؟ ہم میں سے جس کو اللہ تعالی نے تھوڑی سوجھ بوجھ عطاء کی ہے وہ ماسوائے تنقید کے کیا کرتا ہے یا کنارہ کشی کر لیتا ہے جو لوگ کنارہ کشی کرتے ہیں ان سے کوئ گلہ نہیں کیوں ایسے خود غرض گجر ہم کو ویسے بھی نہیں چاہیے 
ہم کو تو جی دار گجر چاہیے جو سینہ تان کے خود کو گجر کہتے ہیں اور گلہ شکوہ کرنے کی بجائے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں آؤ اپنا اپنا کردار ادا کریں اور گلے شکوے پس پشت ڈال کر آگے بڑھنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں شکریہ 
چودھری ظفر حبیب گجر