Thursday 27 July 2017

Pakistan movement and Gujjar Nation

گجر قوم اور تحریک آزادئ پاکستان 

قوموں کی زندگی عروج و زوال سے عبارت ہوتی ہے اتار چڑھاؤ قوموں کی زندگی کا حصہ ہوا کرتا ہے لیکن تاریخ میں زندہ وہی قومیں رہتی ہیں جو اپنے لہو سے تاریخ لکھتی ہیں اور مستقبل ان قوموں کا بانہیں کھول کر استقبال کرتا ہے جو اپنے زوال میں بھی اپنی آن بان اور شان کو داؤ پر لگا اپنی آزادی کی حفاظت کرتی ہیں وطن عزیز میں بسنے والی ہزاروں قوموں میں سے گجر ایک ایسی ہی قوم کا نام ہے جس کے آباء و اجداد نے اس دھرتی کا سینہ چیر کر ہزاروں نئے شہر آباد کیے اور ہزاروں سال پہلے ایک اپنے وقت کی جدید اور مہذب مملکت کی بنیاد رکھی جس کو آج دنیا آریا ورت کے نام سے جانتی ہے آریا ورت کا مطلب ہے معزز لوگوں کی سرزمین اور پھر دنیا میں جب ہر سمت سکندر کا ڈنکا بجتا تھا اس وقت اپنے خون سے اپنی جنم بھومی کا دفاع کیا اور ناقابل شکست کو ناکوں چنے چبوا دیے اور پھر کوشان یا کو شانہ  (کسانہ) گجروں نے اپنی اس مملکت کو سنٹرل ایشیاءکے پہاڑوں سے برما کے جنگلات تک پھیلا دیا۔ کو شانہ گجروں کی دوسری شاخ کھوٹا نہ یا کھوٹان یا کھٹانہ گجر چائنا کے بادشاہ بن گئے پھر ہن گجر اٹھے اور چین کے ساتھ برصغیر کے مالک بن گئے ۔ یہ داستان ادھر ختم نہیں ہوتی بلکہ کو شانہ کھوٹا نہ اور ہن گجروں سے یہ وراثت گجر پرتیہاروں کو منتقل ہو گئی اور پھر مسلمان بادشاہوں کے حملوں کے بعد یہ ہزاروں سال پرمحیط یہ مملکت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کے باقی رہ گئی اور گجر مسلمانوں کے دشمن قرار پائے اور گجروں کی حکومتیں اور جائیدادیں تقسیم ہونے لگی اور ان کی تاریخ کو مسخ کیا جانے لگا پھر اللہ رب العزت کا کرم ہوا اور گجر مشرف بہ اسلام ہوئے لیکن تب تک گجر بھکر چکے تھے اور بادشاہوں کی بجائے چرواہے بن کر پہاڑوں پر پناہ گرین ہو چکے تھے چھوٹی چھوٹی گجر ریاستیں قائم رہی مرکزی حکومت ختم ہو چکی تھی ۔ پہاڑوں پر پناہ گرین ہونے کی وجہ صرف اور صرف خون میں موجود آزادی تھی ورنہ سمجھوتے کرتے اور باج گزار بن کر راجہ اور نواب کہلاتے ۔ آزادی کی یہ لڑائی مسلسل چلتی رہی اور گجر آزادی پسند کی بجائے مجرم گرد آنے گئے اور مسلمان حکمرانوں نے ان کی بادشاہتیں کو بھی دوسروں کے کھاتے میں ڈالنا شروع کر دیا اور ان کو باغی چور ڈاکو اور لیٹرے مشہور کرنا شروع کر دیا مطلب جن پر شب خون مارا گیا وہی ظالم کہلائے پھر انگریز آئے تو ہندو اور مسلمان گجروں نے مل کر ان کا جینا حرام کر دیا اتنا بے بس کیا کہ انگریز پکار اٹھے کہ اگر ہندوستان میں گجر رانگھڑ کتا اور بلی نہ ہوں تو ہندوستانی چین کی نیند سوئیں پھر ۱۸۵۷ ء کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی جس کو شروع کرنے والا ایک گجر سپاہی موتنے تھا جس کا مجسمہ آج بھی میرٹھ انڈیا میں نسب ہے اور میرٹھ سے دہلی تک تمام گجر علاقوں سے انگریزوں کو نکال باہر کیا گیا وہ تو دوسری قومیں اگر انگریزوں کا ساتھ نہ دیتی اور مغل بادشاہ آگے بڑھ کر آزادی کا اعلان کر دیتا تو آج ہندوستان کی تاریخ ہی الگ ہوتی ان باتوں کے حوالہ جات کے لیے ممبئی گزٹئیر ۱۹۲۰ اور جنگ آزادی میں علماء دیوبند کا کردار جلد چہارم ملحاظہ ہو۔ اس آزادی کی جنگ کی قیمت گجر قوم نے اپنے خون اور زمین و جائیداد کی صورت میں ادا کی گجر دیش کو راجپوتانہ کا نام دے دیا گیا گجر کریمینل کلاس کا حصہ بن گئے اور تعلیم اور معاش کے دروازے بند کر دیے گئے گجر ہونا جرم قرار پایا اگر آپ نام کے ساتھ گجر لکھتے تو نہ آپ کو زمین ملتی اور نہ تعلیم اس آزادی کی اتنی بڑی قربانی کسی قوم نے نہ دی جو گجر قوم نے دی جب ہر کوئی انگریز کا وفادار بن کر زمین جائیداد حاصل کر رہا تھا انگریزی تعلیم حاصل کر کے معاشی اور سیاسی مقام حاصل کر رہے تھے خطاب وصول کیے جا رہے تھے اور بہت سے کمزور گجر بھی اس عمل کا حصہ تھے وہ اپنی گوت کو الگ قوم بتا کر یا دوسری قوموں میں ضم کر کے یہ سب رعایتیں حاصل کر رہے تھے اس وقت خالص کھشتریا گجر پہاڑوں اور صحراؤں میں آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے یا الگ تھلگ ہو کر پہاڑوں پر چرواہے بن گئے اور پھر اس بہادر قوم کا بہادر سپوت اٹھا اور اپنے آباء و اجداد کی جنم بھومی آریا ورت کو پاکستان کا نام دے کر پاکستان نیشنل موومنٹ کے نام سے آزادی کی تحریک شروع کی ۱۹۳۳ میں شروع کی گئ یہ تحریک ۱۹۴۰ میں پوری مسلمان قوم کی آواز بن گئی موتی گجر کی شروع کی ہوئی جنگ آزادی کو رحمت علی گجر نے پوری مسلمان قوم کی آواز بنا دیا اس ملک کا تصور دیا نقشہ دیا نام دیا اور ایک پرچم دیا وہی نقشہ اور پرچم تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ آج بھی بیس کروڑ عوام کی امنگوں کا مرکز ہے ہم گجر جاہل اور مجرم کہلائے زمین و جائیداد چھوڑ چرواہے بن گئے شہر اور حکومتی ایوان چھوڑ مزارعے بن گئے لیکن نہ اپنی دھرتی سے غداری کی اور نہ آزادی پر سمجھوتہ ان شاءاللہ ہم آریاورت کے بیٹے آج بھی اپنی مٹی پاکستان کے محافظ اور وفادار ہیں اور ہماری آنے والی نسلیں بھی اپنے بزرگوں کی روایات کی آمین ہوں گی ان شاءاللہ