Thursday 28 May 2015

Sardar Abdul Rehman Gojar



بابائے گجراں ھزارہ ڈویژن "سردار عبد الرحمن گجر صاحب "
آپ 2 جون 1929ء کو سردار محمد خان گجر کے ھاں ایبٹ آباد میں پیدا ھوئے. ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسلامیہ ھائی سکول ایبٹ آباد سے حاصل کی. اس زمانے میں میٹرک کا امتحان پنجاب یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام ھوتا تھا. اس لئے سردار صاحب نے میٹرک کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پاس کیا. سردار عبد الرحمن گجر صاحب نے تعلیم سے فراغت کے بعد آرمی میں جانے کی کوشش کی لیکن میڈیکل ٹیسٹ میں "بروکن چیسٹ" کی وجہ سے سلیکٹ نہ ھو سکے. اس کے بعد سیشن کورٹ ضلع ایبٹ آباد میں ملازمت اختیار کر لی. آپ کا برادری سے محبت کا واقعہ
" جب سردار صاحب گورنمنٹ اسلامیہ ھائی سکول ایبٹ آباد میں زیرِ تعلیم تھے تو اس وقت خواجہ محمد اقبال صاحب جو کہ سیالکوٹ کے رھنے والے تھے،وہاں ھیڈ ماسٹر تھے اور گجر تاریخ سے کافی حد تک واقف تھے. بشیر احمد سیکنڈ ھیڈ ماسٹر تھے. ایک دن انہوں نے سکول میں بچوں سے پوچھا کہ تم لوگ کس قبیلہ سے تعلق رکھتے ھو . سردار عبد الرحمن گجر صاحب کی کلاس میں گجر بچوں کی اکثریت تھی لیکن کچھ بچوں نے کچھ کہا اور کچھ نے کچھ. صرف سردار صاحب اور ان کے بھائی نے کہا کہ ھم " گجر قبیلہ " سے تعلق رکھتے ھیں. اس وقت صوبہ سرحد میں گجر کہلانا گالی سمجھا جاتا تھا. اس بات پر ھیڈ ماسٹر صاحب بہت خوش ھوئے کہ سردار صاحب اور ان کے بھائی نے سچ بولا ھے. اور دوسرے گجر بچوں کو کہا کہ اپنے قبیلے کا نام نہیں چھپاتے . اس لئے سکول کے زمانہ میں ھی وہ سردار صاحب کی عزت کرنے لگے اور انھیں ھمیشہ " گجر " کے نام سے ھی پکارتے. " آہستہ آہستہ یہ لفظ آپ کے نام کا حصہ بن گیا. سیشن کورٹ میں بھی آپ گجر کے نام سے ھی جانے جاتے. بلکہ آپ کی اولاد بھی گجر نام سے ھی پکاری جاتی. آپ کے صاحبزادے سردار وقار الملک گجر صاحب نے ضلع کچہری مانسہرہ میں سب پہلے اپنے لاء چیمبر پر لگے بورڈ پر نام کے ساتھ "گجر " لکھا. بلکہ آپ کچہری میں بھی گجر ھی کے نام سے جانے جاتے. 1985ء کے الیکشن میں سردار صاحب اور دوسرے احباب نے مل کر موجودہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف گجر کو آگے کیا. تمام دوستوں نے مل کر کوشش کی اور سردار محمد یوسف وہ الیکشن جیت گئے.

Student of Achievement

Own Sultan Gujjar with his student of Achievement 

Friday 8 May 2015

Ghazal by Zh Gujjar

گجر ہیں ہم ، لجپال ہیں ہم 
میدانوں کے شاہسوار ہیں ہم 
گجروں کے دم سے آباد ہے جہاں
کیونکہ وقت کی رفتار ہیں ہم 
اپنے خون سے سینچا ہے یہ چمن
اپنے وطن ، اپنی مٹی کے جانثار ہیں ہم 
دنیا جانتی ہے ، دنیا مانتی ہے 
عزتوں ، عظمتوں کے نشان ہیں ہم 
چودھری ظفر حبیب گجر 

Tuesday 5 May 2015

Gujjar history in urdu



بسم اللہ الرحمن الرحیم 
گجر قوم کی تاریخ 
گجر حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حضرت یافث بن نوح کی اولاد ہیں اور انکا بڑا ملک جزیرہ قاددسیہ سے لیکر بلاد ترک ، روس ، بلغاریہ اور دربند دیوار ذی القرنین تک پھیلا ہوا تھا اور انکی اپنی زبان تھی ۔(معجم البلدان ج2ص 367, البلدان والجغرافیاوالرحلات ج1ص 584)

ہند میں اس قوم کو گجر ، گرجر گوجر پکارا جاتا ہے اور روم میں جوزاز، بحیرہ اوصاف میں گزر، برطانیہ میں گرجرا اور آرمینیا اور عرب میں خزر یا جزر پکارا جاتا ہے ۔

گجر ہمیشہ سے ایک مقتدر قوت تصور کی جاتی رہی ہے ۔اسلام کے مکی دور میں جب فارس اور کسریٰ کا مقابلہ ہوا تو فارس والے کسریٰ سے جیت گئے جس پر مکہ کے مشرکین نے مسلمانوں کو طعنہ دیا جسکا جواب اللہ نے سورۃ الروم کی ابتدائی آیات میں دیا کی چند سالوں میں ہی کسریٰ پھر سے فارس پر غالب آئے گا ،

ھرقل نے فارس کا مقابلہ کرنے کے لیئے گجر بادشاہ اور ہند کے بادشاہ سے مدد مانگی دونوں میں دوبارہ جنگ ہوئی اور اللہ کی مدد سے مشرکین کے مقابلے میں اہل کتاب کو گجروں کے ساتھ دینے سے کسریٰ کو فتح ملی ( المعرفہ والتاریخ ج3ص 304,305)

گجر کی بہادری پر عرب شاعر عمر بن جاحظ شعر میں اس طرح بیان کرتے ہیں

؎ خزر عیونھم لدی اعدائھم ،،،، یمشون مشی الاسد تحت الوابل ،،

گجر کی آنکھ دشمن کی آنکھ کی طرح ہے ،،، انکی چال بادلوں کے سائے کے نیچے شیر کی چال ہے۔( البرصان ج 1ص216)

گجر کی بہادری کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایک معزز قوم کے طور پر بھی پہچانی جاتی تھی جس طرح رسول اللہ ﷺ کا شجرہ نسب بیان کرتے ہوئے مصنف ایک شعر میں نبی پاک ﷺ کے خاندان کی تعریف اس طرح کرتے ہیں ؎ بنو شیبہ الحمد الذی کان وجھہ ،، یضئ ظلام الیل کالقمر البدر

کھولھم خیر الکھول ونسلھم ،، کنسل ملوک لاقصار ولا خزر

بنو شیبہ اس تعریف کے مستحق ہیں جس طرح اسکا چہرہ ہے جیسے چوھدویں کا چاند رات کو چمکتا ہے ، انکے بوڑھے بہترین بوڑھے ہیں اور ا انکی نسل بادشاہوں کی طرح ہے مگر قیصر اورگجر بادشاہوں کی طرح نہیں ۔( سیر سبل الھدی والرشاد ج 1ص 266)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گجر اس دور میں بھی ایک بڑی اور معزز قوم اور کسریٰ کے مقابل بادشاہت تصور کی جاتی تھی ۔اور یہ کہ اس قدیم دور سے اس قوم کی اپنی زبان تھی جسکو گوجری زبان کہا جاتا ہے آج بھی اس کی اپنی زبان ہے لیکن صد افسوس کی گجر قوم کے افراد خصوصا نوجوان طبقہ گوجری زبان بولتے وقت اپنی توہیں سمجھتا ہے ، مجھے یہ بات سمجھانے کی نیت سے نہ لکھنی ہوتی تو میں اس کو بھی گوجری میں ہی لکھتا لیکن حالت یہ ہے کہ اکثر گجر قوم کے نوجوان اپنی زبان کو جانتے ہی نہیں ۔

؎ اپنی مٹی پے چلنے کا سلیقہ سیکھو ،،، سنگ مر مر پے چلو گے تو پسھل جاؤ گے ۔

Monday 4 May 2015

Rukhsana Kauser Gujjar

Gujjars demand gallantry award for Rukhsana
October 1, 2009

Jammu: Gujjars in Jammu and Kashmir on Wednesday demanded the country’s highest gallantry award for their community girl who killed a top Lashkar-e-Taiba militant in Rajouri district recently.

“She has done our community proud. We urge President Pratibha Patil, Prime Minister Manmohan Singh and Union Home Minister P. Chidambaram to honour the brave girl with the highest gallantry award of the country,” Tribal Foundation Secretary Javaid Rahi told journalists here.


Rukhsana (22) killed the militant and injured another at Kalsian village, about 217 km from here on the night of September 27.

A letter signed by top Gujjar leaders was sent to Ms. Patil, Dr. Singh and Mr. Chidambaram, urging them to recognize this “rarest, unmatched and extraordinary act of courage of a fearless young Gujjar girl,” Dr. Rahi said. She deserved a national honor for this, he added.

Rukhsana, along with her sibling, overpowered a Lashkar terrorist, snatched his rifle and fired at him, killing him on the spot.

Urdu Speech Bostan Khan Khatana


بابائے گجراں صوبہ سرحد جناب بوستان خان کھٹانہ مرحوم
نے 21 دسمبر 1958 کو تقریر فرمائی تھی اس سے کچھ اقتباسات پیش خدمت ھیں.
" پچپن سے ھمارے دماغ میں یہ بٹھایا گیا تھا کہ گجر اس شخص کو کہتے ھیں جو بھینس پالتا ھے اور دودھ بیچتا ھے. چونکہ ھم گجر تھے. اس لئے لوگ ھمیں طعنہ دیا کرتے تھے اور ھمیں حقیر سمجھتے تھے. اپنے آپ کو پٹھان وغیرہ ظاہر کر کے اپنی برتری ظاہر کرتے تھے. ھم جب بھی اپنے اردگرد نظر ڈالتے تھے تو جتنے گجروں کو ھم جانتے تھے. ان میں ھمیں کوئی خاص با اقتدار آدمی نظر نہیں آتا تھا. اس کے برعکس پٹھانوں میں بڑے بڑے نواب/خان تھے اور تاریخ میں ان کا اکثر ذکر آتا تھا. اس کے علاوہ کسی افسر کے سامنے اپنے آپ کو گجر ظاہر کیا جاتا تھا تو وہ بری نظر سے دیکھتا تھا. یہاں تک کہ ھمیں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ سرکاری ملازمتوں میں گجر بھرتی نہیں کئے جاتے. سوسائٹی میں گجروں کی یہ حالت دیکھ کر یہ قدرتی امر تھا کہ انسان میں احساس کمتری پیدا ھو جائے. اس لئے کبھی ذات پات کا مسئلہ چھیڑ دیا جاتا تو میری پیشانی پر پسینہ آ جاتا تھا. " آپ حیران ھوں گے کہ یہی حالت میری اس وقت تک رھی تا آنکہ میں سب انسپکٹر ھو کر C.I.D میں تعینات نہیں ھو گیا. میں ایسی برانچ میں تعینات ھو گیا تھا جس کا تعلق علاقہ غیر اور افغانستان کے قبائل سے تھا. یہ لازمی امر تھا کہ ایسے ماحول میں میری اپنی قومیت میری آنکھوں کے سامنے رھتی. " خوش قسمتی سے ایک دن میں C.I.D کی لائبریری کی کتابوں کا ایک انڈیکس دیکھ رہا تھا کہ میری نظر سے ایک کتاب گزری اور پہلی مرتبہ مجھے گجر قوم کی تاریخی اہمیت کا پتہ چلا . یہ کتاب 1881ء میں سر ڈنیز ایبٹس نے پنجاب کی پہلی مردم شماری کے موقع پر لکھی. میں نے ایک دفعہ پٹواری کے پاس اپنا شجرہ نسب دیکھا تو اس میں میری قومیت گجر کھٹانہ خیل دکھائی گئی تھی. " اس کے بعد میں اس بات کے پیچھے لگ گیا ککہ لفظ گجر کی وجہ تسمیہ کیا ھو سکتی ھے کیا یہ لفظ واقعی گاؤچر ھے. جیسا کہ اور قوموں کے لوگ کہتے ھیں یا اس کی وجہ تسمیہ کچھ اور ھے." کشمیری مہاجر سے " تاریخ اقوام پونچھ " کتاب لی جس میں گجر قوم کے متعلق ایک باب بھی تھا. اس میں درج تھا کہ اس قوم کی مفصل تاریخ "تاریخ گجر " مولانا عبد المالک مشیر ریاست بہاولپور نے لکھی ھے. چنانچہ میں نے ان کے بیٹے کے ساتھ خط و کتابت کی. انھوں نے "شاھان گجراں " کتاب کا ملنے کا پتہ درج کیا. اس کے بعد لیاقت علی خان کیس کی تفتیش میں راولپنڈی اور پھر ایبٹ آباد جانا پڑا . ایبٹ آباد میں معلوم سردار خورشید عالم وہاں تحصیلدار تعینات ھیں انکے والد سردار محمد عالم افسر مال ھیں اور گجر قوم سے تعلق رکھتے ھیں. تفتیش سے فارغ ھو کر شام کو ان سے ملاقات کی. غرض و غایت سے انھیں آگاہ کیا. خوش قسمتی سے اسی وقت مہر الدین قمر صاحب / مولانا اسماعیل ذبیح صاحب اور علی محمد صاحب یکے بعد دیگرے سردار صاحب کے پاس تشریف لائے. ان کے ساتھ تبادلہ خیالات سے کافی معلومات حاصل ھوئی. اس وقت مجھے پتہ چلا کہ ھماری قوم کی ایک انجمن بھی ھے اور ایک اخبار " گجر گزٹ" بھی نکلتا ھے.

Saturday 2 May 2015

Sardar Gujjar Singh Bhangi

Sardar Gujjar Singh Bhangi (d. 1788)


Gujjar Singh Bhangi was one of the triumvirate who ruled over Lahore for thirty years before its occupation by Ranjit Singh, was son of a cultivator of modest means, Nattha Singh. Strong and well built, Gujjar Singh received the vows of the Khalsa at the hands of his maternal grandfather Gurbakhsh Singh Roranvala, who presented him with a horse and recruited him a member of his band. As Gurbakhsh singh was growing old, he made Gujjar Singh head of his band. Soon the band was united to the force of Hari Singh, head of the Bhangi Misl of chiefship. Gujjar Singh set out on a career of conquest and plunder. In 1765, he along with Lahina singh ,adopted son of Gurbakhsh Singh, and Sobha Singh, an associate of Jai Singh Kanhaiya , captured Lahore, from the Afghans. As Lahina Singh was senior in relationship, being his maternal uncle, Gujjar Singh allowed Lahina Singh to take possession of the city and the fort, himself occupying eastern part of the city, then a jungle. Gujjar Singh erected part of the city, then a jungle. Gujjar Singh erected a mud fortress and invited people to settle there. He sank wells to supply water. A mosque was built for muslims. The area, the site of present-day railway station of Lahore, still bears his name and is known as Qila Gujjar Singh.
Gujjar Singh next captured Eminabad, Wazirabad, Sodhra and about 150 villages in Gujranwala district. He then took Gujarat from Sultan Muqarrab Khan whom he defeated under the walls of the city in December 1765, capturing both the city and the adjoining country, and making Gujrat his headquarters. Next year, he overran Jammu, seized Islamgarh, Punchh, Dev Batala and extended his territory as far as the Bhimbar hills in the North and the Majha country in the south. DuringAhmad Shah Durrani's eighth invasion, Gujjar Singh along with other Sikh Sardars offered him strong opposition. When in January 1767, the Durrani commander-in-chief reached Amritsar at the hed of 15,000 troops, the Sikh Sardars routed the Afghan horde. Soon afterwards Gujjar Singh laid siege to the famous fort of Rohtas, held by the Gakkhars, with the assistance of Charat Singh Sukkarchakia , who was on the most amicable terms with him and gave his daughter, Raj Kaur, in marriage to his son, Sahib Singh. Gujjar Singh subjugated the warlike tribes in the northwestern Punjab and occupied portions of Pothohar, Rawalpindi and Hasan Abdal.
Gujjar Singh died at Lahore in 1788.