Monday 30 June 2014

Gujjar History 7

قسط 7
اسلام علیکم۔۔ تاریخ کا یہ سفر صدیوں کا سفر ہے یہ کوئی ایک دو دن یا ایک دو سال کی بات نہیں ہے یہ تاریخ صدیوں میں مرتب ہوئی ہے اور اس میں بہت سے عروج و زوال شامل ہیں۔۔ قتل و غارت ، مار دھاڑ، بادشاہتوں کا سفر ہے یہ۔۔ اس لیے اس کو بہت سے تناظر میں دیکھنا پڑے گا۔۔۔ آج سے ہم ایک ایک سوال کے ذریعہ اس عقدہ کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔۔۔
گجر کاؤکشین نسل ہیں۔۔ اس کے بعد یہ نسل تین گروہوں میں مزید تقسیم ہو گئی۔۔ ایک گروہ  ترکی وغیرہ میں، دوسرا سنٹرل ایشیاء اور چائنا کے کچھ علاقوں میں اور تیسرا گروہ ہندوستان میں تھا۔۔ پہلا گروہ ترک کہلایا، دوسرا گروہ یو آچی کہلایا اور تیسرا گروہ آریا کہلایا۔۔۔
اس لیے جب لوگ گجر نسل پر تحقیق کرتے ہیں تو کوئی ان کو آریا بولتا ہے کوئی کہتا ہے کہ نہیں یہ ترک النسل ہیں اور پھر کوئی کہہ دیتا ہے کہ یہ تو یوآچی النسل ہیں۔۔۔ آپ اس کو ترک کہیں یا یوآچی یا آریا بات تو ایک ہی ہے۔۔ یہ تینوں گروہ ایک ہی نسل کاؤکشین سے تعلق رکھتے ہیں۔۔
وقت کے ساتھ ساتھ اور ان کی زبان میں بھی فرق آتا گیا اور موسمی حالات نے ان کی شکل و شباہت پر اثر ڈالا اور اس کی وجہ سے لباس میں بھی فرق آیا۔۔ وقت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے درمیان فرق بڑھتا گیا۔۔۔ دوسری قسط میں جس حسد، تکبر اور دوسری چیزوں کی بات کی تھی انہوں نے بھی اپنا اثر دکھایا، ایک ہی قبیلہ کے دو گروہوں میں حکمرانی کی جنگ نے گجر قوم کے اندر بہت سے ردو بدل کیے اس سے نئے نئے قبیلوں نے جنم لیا نئی نئی حکومتوں نے جنم لیا۔۔ اغیار کی سازشوں کا شکار ہوئے موقع پرستوں نے اپنے فائدے کے لیے ہماری تاریخ تک سے کھیلواڑ کیا۔۔۔ اب اگلی اقساط میں ہم آریا دور سے شروعات کریں گے
والسلام۔۔۔ چودھری ظفر حبیب گجر

Friday 27 June 2014

Gujjar History 6

قسط 6
اسلام علیکم۔۔۔ ایک غلطی فہمی کی تصحیح (میری ذاتی رائے میں) اہل اسلام نے اہل عرب و عجم کو ایک الگ گروہ لکھا ہے اور یورپین نے اس کو الگ گروہ تسلیم نہیں کیا۔۔ اصل میں ہوا یہ ہو گا کہ حضرت نوحؑ اور ان کے ساتھ مسلمانوں کا ایک گروہ (چوتھا گروہ) شام میں ہی بس گیا ہو گا جس سے اہل عرب و عجم نے جنم لیا اور اس گروہ میں ہر طرح کے رنگ و نسل کے لوگ موجود ہوں گے اس لیے اگر ہم عرب کے رنگ و نسل کا جائزہ لیں تو ہم کو پتہ چلتا ہے کہ اس میں نیگرو اور کاؤکشین دونوں نسلوں سے ملتے جلتے لوگ ہیں کہ بعض اوقات لگتا ہے کہ یہ نیگرو نسل ہے اور بعض اوقات لگتا ہے کہ نہیں یہ کاوکشین نسل سے ہیں۔۔۔

ہمارے آباء و اجداد جس خطے میں جا کر آباد ہوئے وہ آجکل سنٹرل ایشیاء اور یوریشیاء کہلاتا ہے اور نیگرو ہندوستان اور افریقہ کی طرف آباد ہوئے اگر سب سے قدیم ہندوستان کی آبادی کو دیکھیں اور افریقین نسلوں کو دیکھیں تو ان میں رنگ و نسل کی مماثلت پائی جاتی ہے۔۔

جیسے جیسے ان خطوں میں آبادیاں بڑھنا شروع ہوئیں تو نئے نئے علاقے آباد ہونا شروع ہو گئے ۔۔ ہم نے سارے سنٹرل ایشیاء ، یوریشیاء اور چائنا کے صوبے سنکیانگ تک کے علاقے آباد کیے دوسری طرف ہم یورپ کو آباد کر رہے تھے جس میں بلغاریہ، چیچنیا، رومانیہ، آرمینیاء اور دوسرے آس پاس کے علاقے شامل تھے۔۔ اور تیسری طرف ہم عراق، ترکستان اور ان علاقوں کی طرف پھیلتے جا رہے تھے جیسے جیسے آبادی کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا ویسے ویسے آپسی لڑائیاں بڑھتی جا رہی تھیں اور نئے علاقوں کی دریافت کی ضرورت بڑھتی جا رہی تھی۔۔ ہماری ایک نسل نے شاہراہِ ریشم جیسا عظیم راستہ دریافت کیا اور اسی راستے سے بڑھتے ہوئے ہندوستان تک آ پہنچے۔۔ انہوں نے سمرقند اور بخارا جیسے عظیم شہروں کو آباد کیا۔۔  اور اسی طرح سارے شمالی ہندوستان پر قابض ہو گئے اور ہندوستان کی قدیم اقوام کو جنوب مشرق کی طرف دھکیل دیا (سری لنکن اور انڈیا کے بعض قبائل کو دیکھ کر آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ رنگ و نسل میں کتنا فرق ہے ) پھر سکندرِاعظم کا وقت آیا تو وہ بھی اسی راستے سے ہندوستان تک پہنچا۔۔ وہ بھی دراصل کاؤکشین نسل تھا لیکن اس کی ساری لڑائی بھی کاؤکشین نسل سے ہی ہے اس لیے کچھ تاریخ دان اس سے گجر نسل کے ابتداء کی بات کرتے ہیں اور کچھ اس سے لڑائیوں کا ذکر کرتے ہیں۔۔ یہ اصل میں ایک ہی نسل کے لوگوں کی آپس میں طاقت کی جنگ تھی۔۔۔ صرف عجم میں ہونے والی اس کی جنگیں دوسرے کسی گروہ کے ساتھ تھیں۔۔
سکندر کے بعد گجروں کے جس قبیلے نے سب سے بڑی حکومت قائم کی شمالی ہندوستان میں وہ کوشان کہلائے ، اسی وقت چائنا کی طرف گجر قبیلہ یو آچی حکمران تھا اور تیسری طرف سے گجر قبائل عرب سے ہوتے ہوئے ایران میں داخل ہو چکے تھے جو کہ ساکا کہلائے اور وہ درہ بولان سے بلوچستان اور وہاں سے سندھ میں داخل ہوئے اور گجرات (آنڈیا) تک پھیلتے چلے گئے اب جو گجر قبائل شاہراہ ریشم سے ہوتے داخل ہوئے وہ کوہ ہندو کش اور کو ہ ہمالیہ اور کوہ قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کے ساتھ پھیلتے چلے گئے کیونکہ وہ سرد ماحول کے عادی تھے اور وہاں سے وسطی ہندوستان کی طرف بڑھنا شروع ہوئے اور جو قبائل درہ بولان سے آئے تھے چونکہ وہ گرم ماحول کو برداشت کرنے کے عادی ہو گئے تھے اس لیے وہ ان علاقوں کو فتح اور آباد کرتے ہوئے وسطی ہندوستان کی طرف بڑھے۔۔
باقی اگلی اقساط میں انشاء اللہ

چودھری ظفر حبیب گجر

Thursday 26 June 2014

Gujjar History 5

قسط 5
اسلام علیکم۔۔۔ حضرت نوحؑ کے بیڑے نے جس جگہ قیام کیا تھا وہ جگہ آجکل شام کہلاتی ہے اور اس پہاڑی کا نام جودی تھا۔ اسلامی تفسیر اور تاریخ دانوں کے مطابق حضرت نوحؑ کے تین بیٹے تھے سام، حام اور یافث۔۔ سام سے اہل عرب و عجم، حام سے اہل حبش جو کہ ھندوستان کی زمین میں آباد ہوئے اور یافث سے اہل ترکستان۔۔۔
اسلامی تاریخ تین بیٹوں سے ساری نسل کو چلاتی ہے اور جدید تحقیق اس کو تین نسلی گروہ مانتی ہے جدید تحقیق اور اسلام تاریخ دو نسلوں پر متفق ہے کاؤکشین اور نگرو پر تیسری نسل کو اسلامی تاریخ اہل عرب و عجم گردانتی ہے اور جدید تحقیق اس کو منگولین کہتی ہے اور شواہد اور رنگ و نسل منگولین والی تحقیق کو ہی ثابت کرتے ہیں کیونکہ یہ نسل چائنا، جاپان، کوریا اور تھائی لینڈ وغیرہ میں کثرت سے پائی جاتی ہے۔

اب آتے ہیں ہم اپنے اصل سوالوں کی طرف۔۔ ہمارے سوال یہ تھے کہ گجر کون ہیں؟؟؟ تو گجر نسل کاؤکشین نسل سے تعلق رکھتی ہے۔۔۔ دوسرا سوال تھا کہ گجروں کا اصل وطن کونسا ہے؟؟؟ تو سارے تاریخی (قدیم و جدید) یہ ثابت کرتے ہیں کہ گجروں کا اصل وطن وہی خطہ ہے جو آجکل ترکستان، داغستان، گرجستان وغیرہ کہلاتا ہے۔۔
اگلی قسط میں ہم گجر قوم کی ہجرت اور دوسرے عوامل پر بات کریں گے

چودھری ظفر حبیب گجر 

Wednesday 25 June 2014

Gujjar History 4

قسط 4
اسلام علیکم۔۔ ہم انسانی تاریخ کے دو باب مکمل کر چکے ہیں ایک تخلیق انسان اور دوسرا حضرت آدمؑ سے حضرت نوحؑ تک کا دور۔۔ اب یہاں سے ایک نئے دور کی شروعات ہوتی ہیں۔ مختلف جگہوں پر مختلف حوالے ہیں کہ حضرت نوحؑ کے ساتھ کتنے لوگ تھے لیکن ہم 80 مرد و عورت  کے گروہ کو صحیح مان کر چلتے ہیں کیونکہ اس کے اوپر کافی زیادہ لوگ متفق ہیں اور اکثر علماء کرام بھی یہی حوالہ دیتے ہیں۔۔

تاریخِ انسانی کے ماہر حضرت نوحؑ کے ساتھیوں کو ان کی شکل و صورت کی وجہ سے تین بڑے گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں

1- کاؤ کشین۔۔ جو جارجین یا گرجستان کی زبان کا لفظ ہے اور اسی لفظ کو سنسکرت زبان میں کوشان بولا گیا اور بدلتے وقت کے ساتھ یہ لفظ کسان اور کسانہ کی شکل میں باقی رہ گیا۔۔ یہ دنیا کی سب سے خوبصورت نسل ہے اپنے رنگ، اور نین و نقش کی وجہ سے سیاہ بال سرخ و سفید رنگ،، یہ نسل آج بھی اپنی اصل حالت میں گرجستان (جارجیا) آرمینیاء، چیچنیا وغیرہ میں پائی جاتی ہے اور اپنے ہزاروں سال پرانے زبان، لباس اور رسم و رواج پر قائم ہے ان کا خطہ یورپ اور ایشیاء کے سنگم پر آباد ہے اس لیے یہ خطہ یوریشیاء بھی کہلاتا ہے اسی خطے میں داغستان یا کوہِ قاف کا علاقہ بھی ہے جس کو گجر قوم کا آبائی وطن کہا جاتا ہے اسی لیے کوہِ قاف کے متعلق ہزاروں کہانیاں برصغیر کے لوگوں کی زبانوں پر ہیں جن اور پریوں کا دیس یہ لوگ آج بھی اپنی خوبصورتی میں بے مثال ہیں

2- دوسرے گروہ کو منگولین بولا جاتا ہے یہ چپٹے ناک اور زرد رنگت والی نسل ہے جو کوریا، جاپان، چائنا اور مشرقِ بعید میں آباد ہے

3- تیسرے گروہ کو نیگرو کہتے ہیں اور یہ نسل افریقہ میں آباد ہے

یہ تین بنیادی گروہ ہیں انسانوں کے۔۔۔ بعد میں ان کے ایک دوسرے کے ملاپ سے الگ الگ گروہ جنم لیتے رہے ۔۔ جیسے ایک نیگرو اور کاؤکشین کے ملاپ سے پیدا ہونے والا بچہ یا کاؤکشین اور منگولین کے ملاپ سے پیدا ہونے والا بچہ، یا منگولین اور نیگرو کے ملاپ سے پیدا ہونے والی نسل، یا ان نسلوں کے ملاپ کے بعد میں پھر سے ملاپ ہونے کے بعد پیدا ہونے والی نسلوں نے انسانوں کے بہت سے گروہوں اور زبانوں کو جنم دیا۔۔ اس موضوع پر ہم اگلی قسط میں بات کریں گے

چودھری ظفر حبیب گجر


اختلاف اور اصلاح کی بہت گنجائش ہے تنقید یا میں نہ مانوں کی بجائے اپنا نقطہ نظر اور اپنی تحقیق کو مثبت انداز میں سامنے لے کر آئیں شکریہ

Tuesday 24 June 2014

Gujjar History 3

قسط -3
اسلام علیکم۔۔ پھر حکم ہوا کہ جنت میں چلے جاؤ کھاؤ پیو لیکن اس درخت کے نزدیک مت جانا۔۔ ابھی تاریخِ انسانی میں حلال اور حرام کو داخل کر دیا گیا۔۔ پھر آدمؑ نے ایک ساتھی کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس طرح خواہش اور اور تنہائی کے تصور نے جنم لیا۔ ساتھی مل گیا۔۔ اور ساتھی کے کہنے پر درخت کا پھل کھا لیا۔۔ مشورہ اور حکم عدولی کا فلسفہ بھی انسانی تاریخ میں شامل ہو گیا۔۔ اور سزا کے طور پر زمین پر بھیج دیا۔۔۔ اب تاریخِ انسانی میں بہت سے فلسفے شامل ہو گئے۔۔ حکم، حکم عدولی، تکبر، حسد، عاجزی، اقرار، انکار، سوال، جواب، تکرار، جزا، سزا ، تنہائی ساتھی اور سب سے آخر میں استغفار۔۔ توبہ قبول ہوئی آدم و ہوا ؑ پھر سے ایک ہو گئے اور نظامِ انسانیت ترتیب پانا شروع ہو گیا۔۔ رسم و رواج فروغ پانا شروع ہو گئے۔۔ پھر ہابیل نے قابیل کو قتل کر دیا اور جرم کی ابتداء ہو گئی۔۔ ہابیل نے اپنے جرم کو چھپایا اور دنیا میں جرائم پر پردہ پوشی کا عمل شروع ہو گیا اور اس قتل کی وجہ حسد اور طاقتور کا کمزور کو دبا دینا اور حق کو غضب کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔۔ اور ہابیل کو قبیلے میں سے نکال دیے جانے سے عدالتی نظام کی ابتداء ہو گئی اور ہابیل کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ الگ ہو جانا حکومت کی جنگ کی ابتداء تھی۔ ہابیل کے قبیلے کا اپنا الگ خدا بنا لینا توحید اور شرک کی جنگ کی ابتداء تھی اور پھر حضرت ثلیثؑ کو نبوت کا عطاء کیا جانا اور پھر حضرت نوحؑ کا 900 سال تبلیغ کرنا اور صرف 80 مرد عورت کو دائرہ ایمان میں داخل کر پانا اور پھر اللہ تعالیٰ سے عذاب کے لیے دعا کرنا اور کشتی بنانے کا حکم ملنا۔۔ پھر اس میں ان 80 لوگوں کے ساتھ دنیا کے تمام اقسام کے پرندوں اور جانوروں کے جوڑوں کا کشتی میں سوار ہونا اور اس کے بعد زمین آسمان سے پانی کا برسنا اور پورے روئے زمین سے انسانوں کا مٹا دیا جانا تک واقعات پیش آئے اور دنیا کی تاریخ کا ایک حصہ مکمل ہو جاتا ہے اب یہاں سے جدید دنیا کا تصور ابھرتا ہے جو آج تک قائم ہے اب یہاں سے ہم اپنی اصل تحقیق کا عمل شروع کریں گے آپ سے گزارش ہے کہ یہ سارا بیک گراؤنڈ اور اہم نکات آپ کے ذہن میں رہنے چاہیے تاکہ ہم کو تاریخ کو سمجھنے میں آسانی رہے۔۔ والسلام
چودھری ظفر حبیب گجر

اختلاف اور اصلاح کی بہت گنجائش ہے تنقید یا میں نہ مانوں کی بجائے اپنا نقطہ نظر اور اپنی تحقیق کو مثبت انداز میں سامنے لے کر آئیں شکریہ


Monday 23 June 2014

Gujjar History -2

قسط نمبر -2
اسلام علیکم۔۔۔ تاریخ گجراں سے پہلے ہم مختصرا تاریخِ انسان پر نظر ڈالتے ہیں۔۔۔ پیدائش انسان سے پہلے اس زمین پر جنات کا بسیرا تھا اس زمین کے کونے کونے میں جنات بستے تھے جتنے بڑے وہ خود تھے اتنے بڑے ہی جانور تھے اس وقت یعنی ڈائنو سار۔۔۔ پھر جب وہ اپنی سرکشی میں بڑھ گئے ابلیس کو حکم ہوا کہ ان جنات کا اس زمین سے خاتمہ کر دیا جائے (ابلیس خود جنات میں سے ہے لیکن اس نے زمین و آسمان کے چپے چپے پر اتنی عبادت کی کہ اس کو فرشتوں پر بھی فضیلت حاصل تھی ) جب زمین سے جنات کا خاتمہ ہو گیا مکمل طور پر نہیں کیونکہ کچھ جنات ادھر ادھر زمین کے کونے کھدروں میں چھپ گئے تھے کچھ جنات نیک تھے لیکن ان کی زیادہ تر آبادی کو مٹا دیا گیا اور اب زمین پر جنات کی تعداد نہ ہونے کے برابر باقی رہ گئی تھی۔ کیونکہ ایک پوری نسل کو بالکل کٹم کر دینا مقصود نہ تھا بلکہ اس زمین کو ان سے خالی کرنا مقصود تھا۔ میرے خیال میں اسی جنگ میں ڈائنوسار کا بھی خاتمہ ہو گیا اس زمین سے۔۔
پھر اللہ رب العزت نے اعلان کیا کہ میں اپنا نائب پیدا کرنے والا ہوں فرشتوں نے کہا کہ وہ بھی جنات کی طرح زمین میں فساد پھیلائیں گے (جیسے آجکل دنیا کے حالات ہیں شائد اسی طرف اشارہ تھا) یہاں سے وسوسے نے جنم لیا۔  اللہ تعالی نے کہا جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے فرشتوں نے اقرار کیا اور عاجزی کا اظہار کیا۔پھر حضرت آدمؑ کو پیدا کیا گیا اور سجدہ تعظیمی کا حکم ہوا فرشتوں نے سجدہ کیا  اور ابلیس نے انکا کیا اس کی وجہ اس کا حسد اور تکبر تھا۔ اس طرح اب دنیا میں تین چیزیں پیدا ہو گئی ایک وسوسہ یا اندیشہ، دوسرا حسد اور تیسرا تکبر اب یہ تینوں چیزیں اس دنیا کی بنیادوں میں ہیں اور ہر برائی میں کسی نہ کسی طرح یہ شامل ہیں ان کے ساتھ فرشتوں کے اقرار نے عاجزی کو جنم دیا اور اس سے اطاعت نے جنم لیا۔ اور ابلیس کےتکبر سے انکار نے جنم لیا۔۔۔ اب ہم کو آگے چل کر قدم قدم پر تاریخِ انسانی میں اقرار، انکار، عاجزی، حسد، تکبر ملے گا۔۔ والسلام
چودھری ظفر حبیب گجر
نوٹ اختلاف کی بہت گنجائش ہے اس لیے تنقید سے بہتر ہے کہ اصلاح کریں شکریہ

Tuesday 17 June 2014

گجر برادری کے نام پیغام








اسلام علیکم گجر برادری۔۔۔ آج وقت آ گیا ہے کہ جس ملک کا خواب چودھری رحمت علی صاحب اور ہمارے بزرگوں نے سب سے پہلے دیکھا تھا جس کے لیے ہم نے 1816ء برٹش کے خلاف لڑنا شروع کیا تھا۔ ہم نے بے حساب قربانیاں دی ہیں اس ملک کے لیے۔ وہ 1857ء کی جنگ آزادی ہو یا 1947ء کی تقسیم یا کشمیر کی جنگ ہو 1965 ء میں بھی جن علاقوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا وہ بھی گجر قوم کا گڑھ ہیں سیالکوٹ شکر گڑھ وغیرہ اسی طرح سوات آپریشن ہو یا باجوڑ یا جنوبی وزیرستان ان سب علاقوں میں ہم اچھی خاصی تعداد میں آباد ہیں اسی طرح سے بلوچستان کے جن علاقوں میں نقصان ہو رہا ہے وہ بھی سب ہمارے ہیں اب ہم کو ان سب جنگوں سے باہر نکلنا ہے ہر جگہ اس ملک کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں ہم دے رہے ہیں کیونکہ ہم اس ملک کے ہر کونے میں صدیوں سے آباد ہیں اور اس خطہ زمین کو صدیوں پہلے ہمارے ہی آباء و اجداد نے آباد کیا تھا اسی لیے تو ہر جگہ ہمارے نام سے شہر،قصبات اور دیہات آباد ہیں۔ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں پاکستان آرمی کا ساتھ دیں اور آپ پاکستان کے جس بھی شہر کے باسی ہیں اپنے آس پاس کے لوگوں پر نظر رکھیں مشکوک افراد کی اطلاع گورنمنٹ اداروں کو دیں اور اس پاک سرزمین کو جس کو آریا ورت (مقدس سر زمین) اور پاکستان (پاک سر زمین) کا نام ہمارے ہی بزرگوں نے دیا ہے۔ اس پاک سر زمین سے شر پسند عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔۔ یہ ملک ہمارا تھا ہمارا ہے اور ہمارا ہی رہے گے انشاء اللہ اور اس کی حفاظت کی خاطر ہم ہزاروں سال سے قربانیاں دے رہے ہیں وہ سکندر اعظم تھا یا برٹش سرکار ہم نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ یہ پاک سرزمین ہماری ہے اور انشاء اللہ ہماری ہی رہے گی ۔ اللہ رب العزت ہم سب کا حامی و ناصر ہو والسلام چودھری ظفر حبیب گجر

پاکستان میں مارشل لاء

کہیں پاکستان میں مارشل لاء کا راستہ تو صاف نہیں کیا جا رہا؟؟؟ پہلے انڈیا پھر ایران اور اب افغانستان کی حملہ کی دھمکی، ایک طرف کراچی آپریشن تو دوسری طرف شمالی وزیرستان پر آرمی کا حملہ، بلوچستان میں لیویز کا آپریشن تو لاہور میں عوامی تحریک اور پولیس بر سرِ پیکار۔۔۔ آخر ہم کو کون سے گناہوں کی سزا مل رہی ہے قرآن مجید کی آیتِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جب کوئی قوم اپنی سرکشی میں حد سے بڑھ جاتی ہے تو ہم ان میں آپس میں پھوٹ ڈال دیتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔۔۔ ہر طرف پاکستانی ہی پاکستانیوں کو مار رہے ہیں۔۔ ہم کیوں نہیں سمجھ جاتے اس بات کو کہ معاشرے کفر پر تو قائم رہتے ہیں پر ظلم پر قائم نہٰیں رہتے۔۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ہم کو مسجد میں اپنے گناہوں کی معافی سے زیادہ اپنے جوتوں کی فکر ہوتی ہے۔۔ اتنے ظالم ہیں ہم کہ ہم کو پتا ہے ہمارا باپ،بھائی،رشتہ دار یا پھر دوست حرام کماتا ہے ٹیکس چور  یا رشوت لیتا ہے اور بڑے فخر سے کہتے ہیں ماشاءاللہ بہت تھوڑے عرصے میں بہت ترقی کی ہے اس نے اللہ تعالیٰ اور ترقی دے اس کو۔۔ ہم حلال و حرام کے فرق کو بھول بیٹھے ہیں۔۔۔ دنیا میں دو ہی چیزیں ہیں یا وہ حلال ہوتی ہیں یا حرام۔۔ مثلا نماز کا پڑھنا حلال اور چھوڑنا حرام،سچ بولنا حلال اور جھوٹ بولنا حرام، اپنے ہاتھ سے کمانا حلال طریقہ سے اور رشوت کا لینا حرام، نکاح حلال اور گرل فرینڈ/ بوائے فرینڈ حرام ۔۔۔ انصاف کرنا حلال اور اس کو جان بوجھ کر لٹکانا حرام، جب کسی معاشرے میں یہ فرق مٹ جائے تو وہ معاشرہ قائم نہیں رہتا۔۔۔ ہم نے تو حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا دیا ہے۔۔ ہم پیسے کے پجاری ہوس ذدہ لوگ ہیں اپنے اپنے مفادات کو غلام ہم کو سکون کہاں سے ملے گا ۔۔ ہماری بستیاں کیسے خوشحال ہو سکتی ہیں۔۔ ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اس میں کسی کا کوئی قصور نہٰیں، جس قوم کے عالم بے عمل، حکمران مفاد پرست اور عوام بے حس ہوں ان قوموں کا یہی حال ہوتا ہے جو ہمارا ہے ہر طرف ایک آگ کا دریا ہے اور اس میں سے کود کے ہی جانا ہے۔ خدارا اب بھی نہ سمجھے ہم تو کب سمجھیں گے کہ معاشرے کفر پر قائم رہ سکتے ہیں ظلم پر نہیں۔ ہم کو اپنی آنکھوں سے سیاسی، سماجی، معاشرتی، مذہبی، مسلکی ٹھیکیداروں کی باندھی ہوئی پٹیاں اتارنی ہوں گی کیونکہ یہ سب ایک ہی چکی کے پاٹ ہیں۔ سب اپنی اپنی خواہشوں کے غلام اور ہر بندہ اپنی ذات میں عقلِ کل۔۔۔۔
چودھری ظفر حبیب گجر

Saturday 14 June 2014

Gujjar in Bukhara

according to book " lahore to ta khak e Bukhra samarqand " gujjar are living in this area before Alexander the great and their religion was Buddhism  

Chaudhry Anwar Aziz Gujjar

Chaudhry Anwar Aziz


Chaudhary Anwer Aziz
Wednesday, 06 February 2013 00:00
Written by The Spokesman
By Amir Mateen


Chaudhary Anwer Aziz claims he is a retired politician. Well, politicians don’t retire. Chaudhary Aziz-definitely not. He may have passed on his Shakargarh constituency to son, Daniyal Aziz but politics remains the lifeblood that keeps him kicking even at the ripe age of 82. Ripe because, at 82, who else can swim 24 lengths in a row and drive from that last corner of Pakistan, Shakargarh, to Islamabad, sometimes at the speed of 120 km per hour on GT Road. Then return to Lahore the next morning after a late wholesome sitting with friends who may comprise a strange mix. You will find in his company the choicest journalists, politicians, intellectuals and then a ‘Shakargaria’ clerk or a watchman who may have dropped by to say Salaam. You can rest assure that the watchman will always get equal respect if not more.


Discussion on such evenings swings from politics to philosophy to anything that flows with the mood but one always gets up feeling a little wiser--or tipsy. One can’t tell the difference sometimes though. It usually ends up with Chaudhary Saheb, as we call him affectionately, reciting poetry and concluded by a cherry on top—a singing session of Mian Mohammad Baksh’s Saiful Malook.


I am always impressed by his zest for life. He lives a wholesome life that a few can claim. Details of the 24 hours that I spent with him to attend a wedding in Karachi should explain. He literally dragged me to swimming the moment we checked-in at Beach Luxury. A small ferry waited for us at the hotel wharf that took us to deep sea ‘crabbing.’ You could trust Chaudhary Saheb, a good chef that he is, for quality cooking. After a moon-lit breezy evening at sea we went to the mehndi ceremony. Once there, he took the lady of the House to the dance floor. The whole party, as always, revolved around him—dancing, singing and laughing at his jokes. The night did not end before he made me watch, once again, the film “Scent of a Woman,” just to prove a point of discussion that Al Pachino makes in his speech at the end—not to mention his tango as a blind man. Before we flew back he made sure that we, among other things, had Karachi’s famous Burns Road nihari. This was more than what some people do in a lifetime. And it’s always this way that he lives his day.


It’s not because of material luxuries actually. It’s his attitude. Nothing is ordinary for him. He will make a simple food seem as a sumptuous cuisine by garnishing it with a sauce, salad or a lassi and then having it on rooftop under winter sunshine. He prefers GT Road over the Motorway in travelling because it has a soul. It’s called as the ‘Royal journey.’ It has all the ingredients of a picnic; the holy water, holier music and, of course, the holiest discussion. The climax comes at Jhelum River where we eat the best Mahasher fish that his jail mate from the Martial Law days, Babbu Khan, always keeps on the side.


His modest demeanor and inquisitiveness for information can be deceptive to the naïve who often take him for a country cousin—basically paindoo. His rapt attention usually encourages the immodest variety to brag a little extra. That’s a mouse-trapper. The moment Chaudhary makes a small observation, quoting Toynbee, Gibbons or Machiavelli’s Prince that he remembers word by word, the other person realizes the vastness of his knowledge and wisdom. It’s always enjoyable for the people who know where the ‘mouse’ is headed.


The range of his interest is exceptionally vast—swinging from Beethoven to soybeans to bio gas. He is perhaps one of the few living Pakistanis who may have the credentials to claim expertise on such a broad spectrum of issues. Fewer have lived the rich life that he has led. Chaudhary saw the trauma of the Partition in his teens. He was groomed by teachers like Sufi Tabassam, Pitras Bokhari, Dr Nazir at the Government College, Lahore. His peers at the GC represented the cream of northern India. Chaudhary lived in the very hostel room where Allama Iqbal stayed. His life-long friends from Iqbal Hostel, to name a few, included Zulfiqar Ali Bhutto’s Military Secretary, the late Major General Imtiaz, Abid Ali Shah, the guru of public relations who had the honour to introduce singer Mohammad Rafi to Bombay, scholar Dr Anwaar Syed and the famous ‘Defender of Lahore,’ Shafqat Baloch who as major deterred two Indian divisions with just two companies in the 1965 war.


Chaudhary represented Pakistan as a swimmer in 1948 Olympics. I saw his friends Shoaib and Saleema Hashmi do this skit about him in a New York ballroom fund-raiser. It describes the announcement of medals. “The bronze goes to England, silver to Canada, gold to Australia and Pakistan’s Chaudhary Anwer Aziz still swimming.” He affectionately curses Shoaib every time the joke is narrated.


He went on a Fulbright Scholarship to Michigan University in the 1950s, where he met his wife Kathleen, and later became District Attorney of California. From those lofty heights, he flew back straight to his village in Shakargarh which in those days did not even have a toilet, let alone a toilet paper that Kathleen was used to. Kathy aunty, as everybody called her, laced her English with chaste Punjabi. The Shakargarhias loved the couple living in their midst—a maim helping them in daily chores in Punjabi. They expressed their fondness by voting the Chaudhary to power time and again.


Chaudhary is perhaps the only living member from the 1964 Assembly, winning against the will of the ruthless Nawab of Kalabagh, the second person being Chaudhary Zahoor Elahi. He became Federal Minister in the Cabinets of Prime Ministers Zulfiqar Bhutto and Mohammad Khan Junejo. The credit for giving Ziaul Haq his first shock by defeating his candidate for Speakership, Khawaja Safdar, in the 1985 National Assembly goes largely to the Chaudhary. Junejo’s defiance against the dictator could also be partially attributed to Chaudhary. A whole generation of journalists such as Nusrat Javed, Shaheen Sehbai, Mohmmad Malick, Zafar Abbas and myself, has learnt the ropes of politics from him. He is equally sought by the younger lot of Rauf Klasra, Arshad Sharif and Asma Shirazi and the grandies such as Munoo Bhai, Abbas Athar and Nazir Naji.


It’s a treat when he is around. His literary credentials are no less. He was the host when Mustafa Zaidi was introduced by Sufi Tabussam as Tegh Allahabadi who then recited his famous poem Tarash-i-Aazrana for the first time. Jalib considered his house as his second home. So did Jafar Tahir, whose long epic poem ‘Wapsi’ we always insist him to recite. Intellectuls Ismat Alig lived in his house for years and he was close to the firebrand orators Abdullah Butt and Shorish Kashmiri, writer Abdullah Malik, painter Sadeqain, Punjabi poets Imam Din Gujrati and Sharif Kunjahi. He discussed political theory with scholar Samuel Huntington and hosted the Kennedys, Henry Kissinger, Yasir Arafat, among others, as a Protocol Minister. If this is not enough reason to envy him, our generation particularly, what is?


But I respect Chaudhary Sahib more because of his love for the common man. He is constantly thinking about what he can do for the poor and the needy. Anybody who has ever met him will have a story to tell. Why-and-how-he-did-what kind of stories. How he always gave a hike to anybody who raised a hand while travelling; how he always paid money to every beggar who approached him; how he sat, ate or stood up--there was always this Chaudray style of doing things.


He pioneered milk pasteurization by introducing Tetrapack in Pakistan as Bhutto’s advisor on Livestock. We sometimes laugh about his passions but he is always up to something. He tried to improve the economy of commoners by distributing Angora rabbits, known for their long and soft wool. He tried schemes to promote cows, goats and vegetables. He distributed the newly arrived Broiler chickens among his people hoping they will return eggs, thus starting a chain to boost their economy and poultry. Some did and most did not. But this did not stop him from bringing sacks full of new seeds that he distributed for free. He spent years promoting cheaper soya milk as he believes the ‘robber barons’ will let the price of milk come down and that normal milk cannot fulfil the nutrition requirement of Pakistan. Many of his may not have worked but this has not deterred him. He is now busy devising ways to cure brackish water through solar energy. How do you draw your energy, I asked him once. “From the poor people in Shakargarh,” pat came the response.


“Shakargarh, Shakargarh, Shakargarh—I am sick of hearing this from Chaudhary Anwer Aziz all my life,” this is how Abbas Athar started his column on him. And this is what defines him. I have not seen a politician who is as much in love with his voters—actually people he considers as his extended family--as Chaudhary is. Last time when I we had the ‘royal journey’ he was so proud to show me the trees on both sides of the road that leads from Narowal to Shakargarh. The only time I ever saw him bragging, spark in his eyes: “I grew them, many of them literally with my own hands.”


I had the privilege to play cards with the exclusive club of his childhood mates on Eid for many years. A stage came when we missed a member or two every year because of their death. Age, I suppose. We stopped praying for them as it turned the game into a condolence meeting. We had to stop the practice as the club came down to little, very little, two years ago. It has been my honour knowing him for almost a quarter of a century. May you live for 182 years, Chaudhary sahib. No retirement!


Edittor: Chaudhary Anwer Aziz has consented to do a blog for us where he will share his ideas with our viewers. This article explains the vastness of his expertise. We have named the blog as Baabay Di Gall. Considering his vigour, he is the last man to be called as Baaba but this is how people in Shakargarh address him affectionately.