Saturday 4 July 2015

Thanks to gujjar

اسلام علیکم ۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی کے بعد جب گجروں کو بحیثیت قوم پیچھے دھکیل دیا گیا اور گجر ہونا جرم بن گیا ایسے میں جب نفسانفسی کا دور تھا تو چند پڑھے لکھے نوجوان (جن میں سرفہرست مولوی فتح دین مرحوم کا نام تھا) ان کے علاوہ دودھ بیچنے والے اور بکریاں چرانے والے گجروں نے اس قوم کے نام کو زندہ رکھا۔ اس دور میں جب لوگ زمین جائیداد یا نوکری کے لالچ میں اپنی قوم کا نام بدل رہے تھے یا اپنی گوترہ کو دوسری قوموں میں بدل رہے تھے اس وقت انجمن گجراں مرکزیہ اور یہ دودھ فروش سینہ تان کر کھڑے ہوئے اور خود کو گجر کھلوایا۔۔ آج جب ہم اس برے وقت سے نکل آئے ہیں تو ہم کو اپنی یہی پہچان بری لگتی ہے جن لوگوں کو سلام پیش کیا جانا چاہیے تھا ہم ان پر ہی اعتراض کرتے ہیں جب اپنی گاڑی پر کوئ گجر نہیں لکھتا تھا اس وقت ریڑھے والے اور رکشہ چلانے والے نے خود کو گجر لکھا آج یہی پہچان بری لگتی ہے ہم کو ۔۔۔ ہم ان سب لوگوں کو جنہوں نے ان تنظیموں کو بنایا اپنا وقت اپنا پیسہ دیا ہم ان کو سلام پیش کرتے ہیں اور ان تمام لوگوں کے مشکور ہیں جنہوں نے اپنے ریڑھے اور رکشہ کے پیچھے گجر لکھ کر ہمارے نام کو مٹنے نہ دیا ان تمام بزرگوں کے بےحد مشکور ہیں جنہوں نے اپنے پروفیشنل کرئیر کو پس پشت ڈال کر ہماری پہچان کو باقی رکھا وہ تمام سٹوڈنٹ لیڈر جو تمام بڑی جماعتوں سے لڑتے رہے ۔۔۔ وہ تمام حضرات جو اپنے قلم سے اس قوم کی بقاء کی جنگ لڑتے رہے ہمارے محسن ہیں ۔۔۔ہم کو آپ سب پر فخر ہے اللہ تعالی آپ سب کو جزائے خیر عطاء فرمائے اور جو ہم سے جدا ہو گئے ان کی مغفرت فرمائے آمین 
چودھری ظفر حبیب گجر 

No comments:

Post a Comment