Tuesday 1 July 2014

Gojar, Gujjar, Gurjar



Gojri in service of culture (Editorial of Daily excelsior)

Gojar, Gujjar and Gurjara are different forms of one name with which a particular community in the State is associated. Many scholarly research studies have been conducted not only in the country but outside the country as well on the origin, demographic distribution, history and culture of Gujjar community. Surprisingly, some researchers have extensively delved deep into geographical distribution of this community and have asserted that Gurjistan of Arabic and Farsi historians is the present Georgia in the Eurasian region, which was previously a component of the Soviet Union. The people there are called Gorji. At the same time, Gujarat, the southern state of India wherefrom the present Prime Minister Narendra Modi comes, is also stated to be the ancient habitat of Gurjaras of Vedic and epic times of India. Nearer home, Gujranwala (Gujran is plural of Gujjar and wala is suffix) is a district in Pakistan not far from Jammu. The Gurjaras are often spoken about in our mythological lore. Hence the Gujjars of our State are historically and ethnically connected to a vast human society spread over a huge chunk of the globe. They can become India’s non-official ambassadors to various parts of Asiatic Continent and can become instrumental in forging of a huge international social cum ethnic group.

The two-day State level Gojri cultural meet is a happy reminder of realization on the part of stakeholders that they have to exploit the vast potential hidden in them. These meets can become role model for other communities. We would like that the Gojri cultural organizations, Academy of Culture and Art and the Gojri scholars and literati all join hands to give international profile to intellectual and creative activities they are doing for the promotion of Gojri language, literature and culture. All these activities need to be dovetailed to international profile of Gujjars.

Gujjar History 8

قسط 8
اسلام علیکم۔۔ ہم گجر نسل اور آریا نسل کے آپسی تعلق پر بات کر چکے ہیں۔۔ اب ہم آریا نسل پر بات کرتے ہیں۔۔ آریا سنسکرت لفظ ہے جس کا معنی ہے معزز، نوبل، وغیرہ۔۔ ہندو مت میں آریا اس بچے کو بولا جاتا ہے جو منتوں مرادوں سے پیدا ہوا ہو۔۔ بدھ مت مٰیں آریا معزز، عزت دار شخص کو بولا جاتا ہے۔ اور جین مت میں آریا نیک کام کرنے والے کو بولا جاتا ہے۔۔۔
ہم پچھلی قسطوں میں یہ بات تفصیلا بیان کر چکے ہیں۔۔ کہ کاؤکشین نسل نے تین اطراف میں ہجرت کی اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک دائرے کی صورت میں اپنے ارد گرد پھیلنے کے بعد تین اطراف میں زیادہ تیزی سے پھیلے ۔۔ آریا کو دو گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے یونانی آریا اور انڈین آریا۔۔۔

انڈین آریا وہ لوگ ہیں جو کاؤکشین خطہ سے ہجرت کر کے ایران سے ہوتے ہوئے انڈیا پہنچے اور یہ تقریبا 5000 سال پرانی ہجرت ہے۔۔ جب آریا اپنے وطن سے چلے تو یہ اپنے آبائی مذہب توحید پر قائم تھے ۔۔ لیکن جب وہ ایران کے خطے میں پہنچے تو ایران کی قومیں سورج،چاند، آگ اور مظاہر پرست تھے ۔۔ وہاں سے یہ مذاہب آریا نسل یا گجر قوم میں آ گئے۔۔ پھر گرجستان سے آنے والے بعد کے گجروں نے پہلے سے موجود گجروں کو ایران سے ہندوستان میں دھکیل دیا اور ان کے ساتھ ان کا مذاہب سورج، یا چاند وغیرہ کی پرست بھی ہندوستان پہنچی ۔۔ ہندوستان میں لوگ بت پرستی کا رواج تھا۔۔ گجر قوم نے اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی اور ہندوستان کی باقی اقوام کو یا مطیع کر لیا یا دور دور بھگا دیا۔۔ اس وقت سارا ہندوستان اپنے دریاؤں اور زرخیز زمینوں کی وجہ سے جنگلوں اور دلدلوں سے بھرا پڑا تھا۔۔۔ آریا نے ان علاقوں پر اپنی وسیع حکومت قائم کی۔۔۔ گجر قوم نے خود کو آریا کہلانا شروع کیا مطلب معزز لوگ۔۔ اور ان کا دیش آریا ورت کہلاتا تھا اور ان کی زبان سنسکرت کہلاتی تھی جو ہندومت کی مذہبی زبان بھی کہلائی کیونکہ ہندومت کو عروج آریا کی وجہ سے حاصل ہوا تھا۔۔ آریا نسل نے ہندومت میں بہت سہ چیزوں کو فروغ دیا جیسے کہ گائے کو گاؤ ماتا کا درجہ دینا اور اس کے ذبح پر پابندی۔۔ اصل مٰیں آریا قوم گھوڑے کی سواری کی عادی تھی لیکن ہندوستان کی آب و ہوا گھوڑے کے لیے مناسب نہٰیں تھی جس کی وجہ سے گائے بیل کو استعمال کیا گیا اور ان کی نسل کو بچانے کے لیے اس کے ذبح کو منع کر دیا جو وقت کے ساتھ ساتھ مقدس جانور کا درجہ حاصل کر گیا۔۔ جیسے شروع میں مسلمانوں کے پاس گھوڑوں کی کمی کی وجہ سے گھوڑوں کے ذبح کو مکروہ یعنی ناپسندیدہ سمجھا گیا لیکن آج چودہ سو سال بعد مسلمان گھوڑے کے گوشت کو حرام سمجھتے ہیں اسی طرح سے ہندومت میں گاؤ کا تصور آیا اور یہ لفظ دوسری زبانوں میں کاؤ (cow) کہلایا۔۔۔ باقی آئندہ
والسلام چودھری ظفر حبیب گجر