Urdu Speech Bostan Khan Khatana
بابائے گجراں صوبہ سرحد جناب بوستان خان کھٹانہ مرحوم
نے 21 دسمبر 1958 کو تقریر فرمائی تھی اس سے کچھ اقتباسات پیش خدمت ھیں.
" پچپن سے ھمارے دماغ میں یہ بٹھایا گیا تھا کہ گجر اس شخص کو کہتے ھیں جو بھینس پالتا ھے اور دودھ بیچتا ھے. چونکہ ھم گجر تھے. اس لئے لوگ ھمیں طعنہ دیا کرتے تھے اور ھمیں حقیر سمجھتے تھے. اپنے آپ کو پٹھان وغیرہ ظاہر کر کے اپنی برتری ظاہر کرتے تھے. ھم جب بھی اپنے اردگرد نظر ڈالتے تھے تو جتنے گجروں کو ھم جانتے تھے. ان میں ھمیں کوئی خاص با اقتدار آدمی نظر نہیں آتا تھا. اس کے برعکس پٹھانوں میں بڑے بڑے نواب/خان تھے اور تاریخ میں ان کا اکثر ذکر آتا تھا. اس کے علاوہ کسی افسر کے سامنے اپنے آپ کو گجر ظاہر کیا جاتا تھا تو وہ بری نظر سے دیکھتا تھا. یہاں تک کہ ھمیں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ سرکاری ملازمتوں میں گجر بھرتی نہیں کئے جاتے. سوسائٹی میں گجروں کی یہ حالت دیکھ کر یہ قدرتی امر تھا کہ انسان میں احساس کمتری پیدا ھو جائے. اس لئے کبھی ذات پات کا مسئلہ چھیڑ دیا جاتا تو میری پیشانی پر پسینہ آ جاتا تھا. " آپ حیران ھوں گے کہ یہی حالت میری اس وقت تک رھی تا آنکہ میں سب انسپکٹر ھو کر C.I.D میں تعینات نہیں ھو گیا. میں ایسی برانچ میں تعینات ھو گیا تھا جس کا تعلق علاقہ غیر اور افغانستان کے قبائل سے تھا. یہ لازمی امر تھا کہ ایسے ماحول میں میری اپنی قومیت میری آنکھوں کے سامنے رھتی. " خوش قسمتی سے ایک دن میں C.I.D کی لائبریری کی کتابوں کا ایک انڈیکس دیکھ رہا تھا کہ میری نظر سے ایک کتاب گزری اور پہلی مرتبہ مجھے گجر قوم کی تاریخی اہمیت کا پتہ چلا . یہ کتاب 1881ء میں سر ڈنیز ایبٹس نے پنجاب کی پہلی مردم شماری کے موقع پر لکھی. میں نے ایک دفعہ پٹواری کے پاس اپنا شجرہ نسب دیکھا تو اس میں میری قومیت گجر کھٹانہ خیل دکھائی گئی تھی. " اس کے بعد میں اس بات کے پیچھے لگ گیا ککہ لفظ گجر کی وجہ تسمیہ کیا ھو سکتی ھے کیا یہ لفظ واقعی گاؤچر ھے. جیسا کہ اور قوموں کے لوگ کہتے ھیں یا اس کی وجہ تسمیہ کچھ اور ھے." کشمیری مہاجر سے " تاریخ اقوام پونچھ " کتاب لی جس میں گجر قوم کے متعلق ایک باب بھی تھا. اس میں درج تھا کہ اس قوم کی مفصل تاریخ "تاریخ گجر " مولانا عبد المالک مشیر ریاست بہاولپور نے لکھی ھے. چنانچہ میں نے ان کے بیٹے کے ساتھ خط و کتابت کی. انھوں نے "شاھان گجراں " کتاب کا ملنے کا پتہ درج کیا. اس کے بعد لیاقت علی خان کیس کی تفتیش میں راولپنڈی اور پھر ایبٹ آباد جانا پڑا . ایبٹ آباد میں معلوم سردار خورشید عالم وہاں تحصیلدار تعینات ھیں انکے والد سردار محمد عالم افسر مال ھیں اور گجر قوم سے تعلق رکھتے ھیں. تفتیش سے فارغ ھو کر شام کو ان سے ملاقات کی. غرض و غایت سے انھیں آگاہ کیا. خوش قسمتی سے اسی وقت مہر الدین قمر صاحب / مولانا اسماعیل ذبیح صاحب اور علی محمد صاحب یکے بعد دیگرے سردار صاحب کے پاس تشریف لائے. ان کے ساتھ تبادلہ خیالات سے کافی معلومات حاصل ھوئی. اس وقت مجھے پتہ چلا کہ ھماری قوم کی ایک انجمن بھی ھے اور ایک اخبار " گجر گزٹ" بھی نکلتا ھے.
Comments
Post a Comment