Showing posts with label Urdu. Show all posts
Showing posts with label Urdu. Show all posts

Sunday 23 July 2017

history of Bhati gujjar in Urdu

بھاٹی ، بھٹی ، بھاٹیہ گجر خاندان
راجہ بھاٹی راوء کی اولاد بھٹی، بھاٹیہ گجر کہلائی.
پہلی صدی قبل مسیح میں گجر راجہ گج کھشتری کی حکومت تھی. اس نے شہر گجنی  (غزنی ) آباد کیا. گج کے معنی ھاتھی کے ھیں. گجگاہیہ گجر گوت ھے.اس قدیمی خاندان کی آج صد ھا شاخیں ھیں. شاھان گجر کے مصنف ابوالبرکات محمد عبدالمالک نے لکھا ھے کہ گجگاہیہ سکندر کے حملے کے وقت راجہ پوڑ (پورس) کی فوج میں ہاتھیوں کے سپہ سالار تھے. یہ بھی صحیح ھے کیونکہ آریہ ورت کا شمال مغربی علاقہ قبل مسیح سے لے کر آٹھویں صدی عیسوی تک سمہ ، سومرو، بھاٹی بھٹی، گجگاہیہ، کشان وغیرہ گجر خاندانوں سے ھی متعلق رھا ھے. اس طرح ایک خاندان کے زوال پر دوسرا برسرِ اقتدار آتا رھا. گجگاہیہ کے معنی " ہاتھی نشین " کے ھیں. انھی گجر سپہ سالاروں کی اولاد کا گوت گجگاہیہ گجر کہلوایا. کتاب ضلع گجرات کے مصنف ڈاکٹر احمد حسین احمد قریشی صفحہ 129،130 میں بحوالہ کتاب آئینہ گجرات از شیخ کرامت اللہ لکھتے ھیں کہ کہ موجودہ شہر بارے بتایا جاتا ھے کہ یہ سکندر اعظم کے وقت بھی آباد اور اسے گجرات کہتے تھے. راجہ پوڑ گجر (پورس) کے ہاتھیوں کا اصطبل اسی جگہ ھو گا. اسی لئے گجگاہیہ ایک قوم کا نام ھے. جو پرانے وقتوں میں فیل بان ھوتے تھے.  گجگاہیہ قوم کے کچھ لوگ آج بھی اس شہر کے پرانے باسی ھیں. گجرات کا موجودہ نام اسی قوم کے نام پر سکندر اعظم سے چلا آرھا ھے. اس سے ثابت ھے کہ کی راجہ پوڑ گجر تھا اور اس کے سپہ سالار بھی گجر تھے اور یہ گجگاہیہ  (ھاتھی نشین ) کہلاتے تھے. اور ان کی فوج گرجر فوج کہلاتی تھی. انھی گجروں کے نام پر آج ضلع گجرات آباد ھے. اسی خاندان کے ایک راجے نے اپنے آپ کو راجہ گج لکھا. اسی لئے چھٹی صدی عیسوی کے برہمن راجہ مہاراجہ ھرش کے درباری شاعر نے طنزیہ کہا ھے" مہاراجہ ھرش کا باپ پربھارکر وردھن گندھار  (قندھار ) کے ھاتھی کے لیے مہلک بیماری تھی. " اس سے واضح ھے کہ گجگاہیہ گجر خاندان چھٹی صدی عیسوی میں شمالی بلوچستان، قندھار تک حکومت کرتے تھے. مختصراً یہ کہ راجہ گج یادو اپنے باپ ارجن یادو کے بعد تخت نشین ھوا. یہ کھشتری یادو ونشی آہیر کہلاتے تھے. پہلی صدی عیسوی میں راجہ گج کی اولاد میں راجہ شالیواھن اس علاقہ کا راجہ ھوا. اس کا دارالخلافہ سیالکوٹ تھا. راجہ شالیواھن کو بعض تاریخوں میں کھشتری اور بعض میں برھمن لکھا ھے. قدیم تاریخوں میں اس کو پیٹھن بھی لکھا ھے. لیکن اس کا کھشتری ماننا ھی صحیح ھے. کیونکہ زمانہ قدیم میں کھشتری سے مراد صرف گجر قوم ھے. راجہ شالیواھن اجین کے راجہ بکرم جیت پنوار گجر 75 قبل مسیح تا 43 عیسوی کا ہمعصر تھا. اس نے شہر سیالکوٹ کو بسایا. اس نے پورا پنجاب اور تھر ریگستان مفتوح کیا. 43 عیسوی میں اس نے اجین پر حملہ کرکے راجہ بکرما جیت گجر کو مار دیا. فتوحات کی ھوس نے اس نے دکن کا رخ کیا اس کی گرجر فوج دریائے نربدا کو پار کرنے لگی تو پنوار گجروں نے تیروں کی بارش کر دی. شالیواھن زخمی ھو گیا اور دریا میں ڈوب کر مر گیا. اس کی فوج بھی تقریباً ختم ھو گئی. اس کے بعد سیالکوٹ کے تخت پر اس کے بیٹے راجہ بل بند کو بٹھایا گیا مگر فوراً ھی راجہ مہراج کی اولاد سے ایک بہادر شخص کنشک کشان گجر نے کشمیر سے نکل کر سیالکوٹ کے تخت پر قبضہ کر لیا. جس طرح کنشک کشان کے اجداد  کو راجہ بل بند کے اجداد نے گندھار اور کشمیر میں پناہ لینے پر مجبور کیا تھا. اسی طرح کنشک کشان نے آہیروں کو سیالکوٹ پنجاب سے نکال دیا. آہیروں کی کثیر آبادی ملتان کے پاس ریگستان میں آ گئی. جہاں راجہ بل بند کے بیٹے بھاٹی راوء نے اپنے نام پر شہر" بھیٹز " آباد کیا. اور آئندہ یہ خاندان بھاٹی  بھاٹیہ اور بھٹی کہلایا. اسی خاندان کے بھٹی یا بھاٹی ریاست سوات اور سرحد میں انھی آہیر راجاؤں کی  اولاد ھیں اور اپنے آپ کو گجر کہلواتے ھیں. راجہ شالیواھن کی تین رانیاں تھی. رانی اچھراں، رانی لونا اور رانی کوکلاں. رانی اچھراں سے پورن پیدا ھوا جو کہ پورن بھگت کے نام سے مشہور ھوا. رانی لونا سے راجہ رسالو گجر پیدا ھوا. سیالکوٹ کا ایک محلہ اسی سردار کے نام پر آج تک " رسالو گجر " کہلاتا ھے. رانی کوکلاں سے سے بل بند تھا. جس نے سیالکوٹ چھوڑ کر ریگستان میں پناہ لی اور جہاں اس کے بیٹے بھاٹی راوء نے قلعہ تعمیر کیا. انڈیا کا موجودہ شہر ضلع بلند جو صوبہ دلی میں تھا. اس علاقہ کو بھی بھٹیز کہتے ھیں. یہاں تین سو پینسٹھ ( 365 ) گاؤں بھٹی گجروں کے ھیں جو اب بھی ھیں. محمود غزنوی اور تیمور کے حملوں کے وقت بھٹیز اور بھٹینڈہ سے ھجرت کر کے یہ لوگ گنگا جمنا کے دوآبہ میں جا کر بس گئے. دلی کے چاروں طرف بھی بھاٹی، بھٹی گجروں کی کثیر آبادی تھی جس کی وجہ سے یہ علاقہ تاریخ میں بھٹیز کہلایا. جب یہاں اور آبادی گجروں کی ھوئی تو اس علاقہ کا نام گجرات ھوا. سولھویں صدی میں انھوں نے پھر عروج حاصل کیا لیکن بابر نے انہیں دبا دیا. اٹھارویں صدی میں یہ پھر آزاد ھو گئے. آخر انگریزوں نے انھیں سابقہ اسناد کی بنا پر تعلقہ دار مان لیا. مختصراً راجہ بھاٹی راوء 90 عیسوی سے لیکر راجہ ابھیاس راوء 605 عیسوی تک بھاٹی گجروں کی حکومت رھی ھے. راجہ ابھیاس کے زمانہ میں ملک میں خانہ جنگی رھی. تھانیسر کے برھمنوں نے عروج حاصل کر کے لاھور تک تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا. تھانیسر کا برھمن راجہ پربھارکر وردھن بیک وقت دریائے راوی کے علاقے میں سیالکوٹ کے ھن گجروں سے، گندھار ملتان کے راجاؤں سے ،مالوہ میں گجرات کے گجروں سے اور وندھیا چل کی طرف لاٹ کے راشٹر کوٹوں سے لڑتا رہا. اس لئے کتاب ھرش چرتر میں اس کی بابت آیا ھے. "کہ وہ گجروں کی نیند بھنگ کرنے والا تھا". یہ اس نے بھاٹی گجر راجاؤں کے بارے میں کہا. تاریخ پاکستان کا مصنف یحییٰ امجد صفحہ 382، 383  میں نقشے میں گجر حکومت کا ذکر کرتا ھے اور لکھتا ھے کہ پربھارکر وردھن کے زمانہ میں رائے یعنی بھاٹی گجروں کی حکومت سندھ، بلوچستان اور پنجاب پر تھی. اس کے متوازی تھانیسر کے وردھن خاندان نے پنجاب میں عروج حاصل کر لیا. اور پھر ھرش چرتر کی تحریر کا حوالہ دیا ھے. گجر بھاٹی راجے اپنے نام کے ساتھ رائے بھی لکھتے تھے. آخر کار اس وقت کا گجر راجہ ابھیاس راوء برھمن راجہ کے ھاتھوں تنگ ھو کر اپنی مضبوطی کی تدابیر کرنے لگا. اس نے قلعہ امروٹ بنایا اور دریائے ھاکڑا کے پاس پنوار خاندان کے گجروں کو اپنا مطیع بنایا اور لودھرے گجروں کو مطیع کرکے ان کے شہر لودھراں کو بھی تصرف میں لے آیا. اور شمالی سندھ کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کیا. آخر 605 عیسوی میں اس کا انتقال ھو گیا.
آئین اکبری کے صفحہ 759 میں لکھا ھے کہ " بنگال کے مشرق میں ایک علاقہ ھے جسے بھاٹی کہتے ھیں. " 
بارھویں صدی میں ایک بھاٹی سردار راوء کوشل مہاراجہ پرتھوی راج چوہان گجر کا سپہ سالار تھا. پاکستان اور انڈیا میں بھاٹی، بھٹی اور بھاٹیہ گجروں کی کافی بڑی تعداد آباد ھے. انھی بھٹی گجروں کی وجہ سے دھلی کا ایک بڑا علاقہ گجرات کہلوایا.

Wednesday 6 January 2016

Kush and Gujjar history in urdu



اسلام علیکم۔۔۔ تاریخ انسانی میں ایک حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے وہ چاہے جدید محققین کی تحریر ہو یا قدیم مورخین کی لکھی ہوئی کتاب ہو ،، کوئی بھی مذہبی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں ،، کسی بھی قوم کے مورخین کی تحریر پڑھ کر دیکھ لیں بات ایک ہی جگہ ختم ہوتی ہے ۔۔۔


دنیا کے سب سے بڑے مذاہب کا نقطہ نظر ایک ہے بس الفاظ کا ہیر پھیر ہے ہندو مذہب کہتا ہے کہ پرمیشور (دیوتاؤں کے خدا) نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر اس پر اپنے دیوتا اتارے۔۔ اسلام، مسیحیت، یہودیت کہتی ہے کہ اللہ تعالی نے زمین و آسمان کو پیدا کر کے اس پر انسانوں کی اصلاح کے لیے اپنے نبیوں کو بھیجا،،،


عیسائی، یہودی، مسلمان طوفانِ نوحؑ پر یقین رکھتے ہیں جبکہ ہندومت کہتی ہے کہ ایک وقت میں ایسا قحط پڑا اور اتنا بڑا طوفان آیا کہ روئے زمین سے سارے انسان مٹ گئے بس ایشور کا بیٹا منو زندہ بچا۔۔ کشمیر کے پانی کے دیوتا نے اپنا نہ کھولا اور ساری زمین پانی سے بھر گئی


اگر ہم غور کریں تو فرق کیا ہے بس اندازِ بیان کا فرق ہے ۔۔ تمام مذاہب اس واقعہ کو بیتے ہوئے تقریبا 8000 سال پہلے کا مانتے ہیں اور تمام مذاہب اس بات سے متفق ہیں کہ موجودہ انسان حضرت نوحؑ یا منو کی اولاد ہیں ۔۔


اسی طرح دنیا کی تاریخ میں دریائے سندھ اور دریائے نیل کی اہمیت بھی اپنی جگہ ہے اور دنیا کی قدیم ترین تہذیبیں انہی دریاؤں کے کنارے ملتی ہیں وہ وادئ سندھ کی تہذیب ہو یا وادئ نیل کی۔ دنیا کے سب سے بڑے زرعی ڈیلٹا بھی انہی دریاؤں کے کنارے ملتے ہیں اور مزے کی بات دنیا کے مقدس ترین دریا بھی یہی کہلائے دریائے نیل کی اہمیت مصر والوں کے نزدیک دیوتا کی تھی اور دریائے سندھ کو ہندو آج بھی مقدس ترین مانتے ہیں (اصل لفظ سندھ ہو جو پرتک زبان میں ہند ہو گیا ورنہ سنسکرت میں سندھ کا ہی ذکر ہے ) جس نے گاندھی جی کو قتل کیا تھا اسی کی استیاں آج بھی پڑی ہیں کیونکہ وہ وصیت کر کے گیا تھا کہ میری استیاں مقدس دریا یعنی سندھ میں ہی بہانا۔۔


اب جدید اور قدیم تحقیق میں فرق صرف اتنا ہے کہ قدیم تحقیق کہتی ہے کہ گجر قوم نے دریائے سندھ کے اوپر والے علاقوں سے ہجرت کی مطلب دریائے سندھ تبت جہاں پاکستان، انڈیا،چائنا، اور وسطی ایشیاء ملتے ہیں اس علاقہ سے ہجرت کی اور جدید تحقیق کہتی ہے کہ گجروں نے وادی نیل میں جنم لیا اور اس اختلاف کا سبب بس کوش قوم ہے قدیم تحقیق کہتی ہے کہ موجودہ افغانستان کوش قوم کا علاقہ تھا اور یہی کوش قوم بعد میں گجر کہلائی اور جدید تحقیق کہتی ہے کہ نہیں ان کا علاقہ وادئ نیل تھا لیکن قدیم تحقیق صحیح ہے کیونکہ تاریخ کہتی ہے کہ نمرود قومِ کوش میں تھا اور اس پر بہت سے حوالہ جات ہیں کہ نمرود کی حکومت موجودہ افغانستان، عراق، شام ، ترکی، اور یوریشیا کے علاقے تھے یہیں سے بابل و نینوا تہذیب نے جنم لیا ۔۔ اور آج بھی ہزاروں شہر گجر قوم کے نام پر انہی علاقوں میں ملتے ہیں


شکریہ چودھری ظفر حبیب گجر

Friday 5 June 2015

Gujjar admins


اسلام علیکم۔۔۔ تمام گجر تنظیموں کے عہدیداران، تمام گروپس ایڈمنز اور کسی بھی طرح سے گجر قوم کے لیے کام کرنے والے ورکرز، کارکن ، کالم نگار، بلاگرز سب سے ایک درخواست ہے کہ اگر آپ یہ کام بے لوث کر رہے ہیں تو اللہ تعالی آپ کو کو جزائے خیر عطاء فرمائے آمین اور اگر آپ کا کوئی سیاسی یا ذاتی فائدہ ہے یا آپ کسی بھی طرح کی امید رکھتے ہیں تو کل کو اس قوم کو برا بھلا کہنے سے بہتر ہے آج اس کام کو چھوڑ دیں کیونکہ اس کام کے لیے کسی نے بھی آپ کو مجبور نہیں کیا۔۔ یہ آپ کا ذاتی فیصلہ ہے اس لیے کسی بھی طرح کی امید مت رکھیں ۔۔ کچھ دوستوں کی پوسٹ دیکھ کر بہت دکھ اور انتہائی افسوس ہوا کہ وہ تنقید کے نام پر پوری قوم کو گالی دیتے ہیں ۔۔ تنقید کرنا ہر کسی کا حق ہے لیکن اس کے لیے الفاظ کا چناؤ بہت ضروری ہے ۔۔ غلط کام ، غلط روئیوں پر تنقید ضروری ہے مگر اس طرح نہیں کہ آپ اس کو ذاتی انا کی جنگ بنا لیں ۔۔۔ اگر ہم سب ایڈمنز یہ کام کرتے ہیں تو اس کے بدلے ہماری قوم جو ہم کو پیار دیتی ہے جو دعائیں دیتی ہے جو عزت دیتی ہے ہم کو اس کا بھی لحاظ ہونا چاہیے ۔۔ اس لیے برائے مہربانی یا تو بے لوث، خلوص اور نیک نیتی سے اپنا کام کریں یا اس کام کو چھوڑ دیں کیونکہ کوئی گھر آ کر ہماری منت سماجت نہیں کرتا اور نہ ہی اس عظیم قوم کو اس کی ضرورت ہے ۔۔۔ شکوہ ضرور کریں لیکن تہذیب کے دائرہ میں شکریہ

چودھری ظفر حبیب گجر

Tuesday 5 May 2015

Gujjar history in urdu



بسم اللہ الرحمن الرحیم 
گجر قوم کی تاریخ 
گجر حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حضرت یافث بن نوح کی اولاد ہیں اور انکا بڑا ملک جزیرہ قاددسیہ سے لیکر بلاد ترک ، روس ، بلغاریہ اور دربند دیوار ذی القرنین تک پھیلا ہوا تھا اور انکی اپنی زبان تھی ۔(معجم البلدان ج2ص 367, البلدان والجغرافیاوالرحلات ج1ص 584)

ہند میں اس قوم کو گجر ، گرجر گوجر پکارا جاتا ہے اور روم میں جوزاز، بحیرہ اوصاف میں گزر، برطانیہ میں گرجرا اور آرمینیا اور عرب میں خزر یا جزر پکارا جاتا ہے ۔

گجر ہمیشہ سے ایک مقتدر قوت تصور کی جاتی رہی ہے ۔اسلام کے مکی دور میں جب فارس اور کسریٰ کا مقابلہ ہوا تو فارس والے کسریٰ سے جیت گئے جس پر مکہ کے مشرکین نے مسلمانوں کو طعنہ دیا جسکا جواب اللہ نے سورۃ الروم کی ابتدائی آیات میں دیا کی چند سالوں میں ہی کسریٰ پھر سے فارس پر غالب آئے گا ،

ھرقل نے فارس کا مقابلہ کرنے کے لیئے گجر بادشاہ اور ہند کے بادشاہ سے مدد مانگی دونوں میں دوبارہ جنگ ہوئی اور اللہ کی مدد سے مشرکین کے مقابلے میں اہل کتاب کو گجروں کے ساتھ دینے سے کسریٰ کو فتح ملی ( المعرفہ والتاریخ ج3ص 304,305)

گجر کی بہادری پر عرب شاعر عمر بن جاحظ شعر میں اس طرح بیان کرتے ہیں

؎ خزر عیونھم لدی اعدائھم ،،،، یمشون مشی الاسد تحت الوابل ،،

گجر کی آنکھ دشمن کی آنکھ کی طرح ہے ،،، انکی چال بادلوں کے سائے کے نیچے شیر کی چال ہے۔( البرصان ج 1ص216)

گجر کی بہادری کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایک معزز قوم کے طور پر بھی پہچانی جاتی تھی جس طرح رسول اللہ ﷺ کا شجرہ نسب بیان کرتے ہوئے مصنف ایک شعر میں نبی پاک ﷺ کے خاندان کی تعریف اس طرح کرتے ہیں ؎ بنو شیبہ الحمد الذی کان وجھہ ،، یضئ ظلام الیل کالقمر البدر

کھولھم خیر الکھول ونسلھم ،، کنسل ملوک لاقصار ولا خزر

بنو شیبہ اس تعریف کے مستحق ہیں جس طرح اسکا چہرہ ہے جیسے چوھدویں کا چاند رات کو چمکتا ہے ، انکے بوڑھے بہترین بوڑھے ہیں اور ا انکی نسل بادشاہوں کی طرح ہے مگر قیصر اورگجر بادشاہوں کی طرح نہیں ۔( سیر سبل الھدی والرشاد ج 1ص 266)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گجر اس دور میں بھی ایک بڑی اور معزز قوم اور کسریٰ کے مقابل بادشاہت تصور کی جاتی تھی ۔اور یہ کہ اس قدیم دور سے اس قوم کی اپنی زبان تھی جسکو گوجری زبان کہا جاتا ہے آج بھی اس کی اپنی زبان ہے لیکن صد افسوس کی گجر قوم کے افراد خصوصا نوجوان طبقہ گوجری زبان بولتے وقت اپنی توہیں سمجھتا ہے ، مجھے یہ بات سمجھانے کی نیت سے نہ لکھنی ہوتی تو میں اس کو بھی گوجری میں ہی لکھتا لیکن حالت یہ ہے کہ اکثر گجر قوم کے نوجوان اپنی زبان کو جانتے ہی نہیں ۔

؎ اپنی مٹی پے چلنے کا سلیقہ سیکھو ،،، سنگ مر مر پے چلو گے تو پسھل جاؤ گے ۔

Monday 4 May 2015

Urdu Speech Bostan Khan Khatana


بابائے گجراں صوبہ سرحد جناب بوستان خان کھٹانہ مرحوم
نے 21 دسمبر 1958 کو تقریر فرمائی تھی اس سے کچھ اقتباسات پیش خدمت ھیں.
" پچپن سے ھمارے دماغ میں یہ بٹھایا گیا تھا کہ گجر اس شخص کو کہتے ھیں جو بھینس پالتا ھے اور دودھ بیچتا ھے. چونکہ ھم گجر تھے. اس لئے لوگ ھمیں طعنہ دیا کرتے تھے اور ھمیں حقیر سمجھتے تھے. اپنے آپ کو پٹھان وغیرہ ظاہر کر کے اپنی برتری ظاہر کرتے تھے. ھم جب بھی اپنے اردگرد نظر ڈالتے تھے تو جتنے گجروں کو ھم جانتے تھے. ان میں ھمیں کوئی خاص با اقتدار آدمی نظر نہیں آتا تھا. اس کے برعکس پٹھانوں میں بڑے بڑے نواب/خان تھے اور تاریخ میں ان کا اکثر ذکر آتا تھا. اس کے علاوہ کسی افسر کے سامنے اپنے آپ کو گجر ظاہر کیا جاتا تھا تو وہ بری نظر سے دیکھتا تھا. یہاں تک کہ ھمیں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ سرکاری ملازمتوں میں گجر بھرتی نہیں کئے جاتے. سوسائٹی میں گجروں کی یہ حالت دیکھ کر یہ قدرتی امر تھا کہ انسان میں احساس کمتری پیدا ھو جائے. اس لئے کبھی ذات پات کا مسئلہ چھیڑ دیا جاتا تو میری پیشانی پر پسینہ آ جاتا تھا. " آپ حیران ھوں گے کہ یہی حالت میری اس وقت تک رھی تا آنکہ میں سب انسپکٹر ھو کر C.I.D میں تعینات نہیں ھو گیا. میں ایسی برانچ میں تعینات ھو گیا تھا جس کا تعلق علاقہ غیر اور افغانستان کے قبائل سے تھا. یہ لازمی امر تھا کہ ایسے ماحول میں میری اپنی قومیت میری آنکھوں کے سامنے رھتی. " خوش قسمتی سے ایک دن میں C.I.D کی لائبریری کی کتابوں کا ایک انڈیکس دیکھ رہا تھا کہ میری نظر سے ایک کتاب گزری اور پہلی مرتبہ مجھے گجر قوم کی تاریخی اہمیت کا پتہ چلا . یہ کتاب 1881ء میں سر ڈنیز ایبٹس نے پنجاب کی پہلی مردم شماری کے موقع پر لکھی. میں نے ایک دفعہ پٹواری کے پاس اپنا شجرہ نسب دیکھا تو اس میں میری قومیت گجر کھٹانہ خیل دکھائی گئی تھی. " اس کے بعد میں اس بات کے پیچھے لگ گیا ککہ لفظ گجر کی وجہ تسمیہ کیا ھو سکتی ھے کیا یہ لفظ واقعی گاؤچر ھے. جیسا کہ اور قوموں کے لوگ کہتے ھیں یا اس کی وجہ تسمیہ کچھ اور ھے." کشمیری مہاجر سے " تاریخ اقوام پونچھ " کتاب لی جس میں گجر قوم کے متعلق ایک باب بھی تھا. اس میں درج تھا کہ اس قوم کی مفصل تاریخ "تاریخ گجر " مولانا عبد المالک مشیر ریاست بہاولپور نے لکھی ھے. چنانچہ میں نے ان کے بیٹے کے ساتھ خط و کتابت کی. انھوں نے "شاھان گجراں " کتاب کا ملنے کا پتہ درج کیا. اس کے بعد لیاقت علی خان کیس کی تفتیش میں راولپنڈی اور پھر ایبٹ آباد جانا پڑا . ایبٹ آباد میں معلوم سردار خورشید عالم وہاں تحصیلدار تعینات ھیں انکے والد سردار محمد عالم افسر مال ھیں اور گجر قوم سے تعلق رکھتے ھیں. تفتیش سے فارغ ھو کر شام کو ان سے ملاقات کی. غرض و غایت سے انھیں آگاہ کیا. خوش قسمتی سے اسی وقت مہر الدین قمر صاحب / مولانا اسماعیل ذبیح صاحب اور علی محمد صاحب یکے بعد دیگرے سردار صاحب کے پاس تشریف لائے. ان کے ساتھ تبادلہ خیالات سے کافی معلومات حاصل ھوئی. اس وقت مجھے پتہ چلا کہ ھماری قوم کی ایک انجمن بھی ھے اور ایک اخبار " گجر گزٹ" بھی نکلتا ھے.

Friday 20 February 2015

Issues of Gujjar Nation (in urdu)

اسلام علیکم۔۔۔ گجر قوم کا کوئی مسئلہ ہے ہم تعلیم کی کمی کا بہانہ کر کے اور ایک کمنٹ کر چپ کر جاتے ہیں۔۔ میرا ایک سوال ہے کیا پاکستان کا کوئی ایسا شہر یا گاؤں ہے جہاں گجر نہ بستے ہوں ؟؟؟ کیا پاکستان کا کوئی ایک ایسا ادارہ ہے جہاں گجر نوکری نہ کرتے ہیں ؟؟؟ کیا دنیا کا کوئی ایسا ملک ہے جہاں پاکستان کمیونٹی ہو اور وہاں گجر نہ ہوں؟؟ کیا پاکستان کی کوئی ایسی یونیورسٹی ہے جہاں گجر طالبِ علم نہ ہوں ؟؟؟ آپ کو ہر شہر ، گاؤں قصبے ، ادارے، یونیورسٹی، مڈل ایسٹ، یورپ، امریکہ، افریقہ ہر جگہ گجر ملتے ہیں انتہائی پڑھے لکھے اور بالکل جاہل، انتہائی امیر اور انتہائی غریب، مڈل کلاس، بزنس مین، بیوروکریٹ ،  آڑھتی، کمیشن ایجنٹ، کنسٹرکٹر مطلب ہر شعبہ زندگی میں گجر ملتے ہیں ۔۔۔ کیا صرف ڈگری حاصل کرنے سے انسان کو شعور آ جاتا ہے یا وہ سمجھدار ہو جاتا ہے ؟؟؟ اصل میں ہم پیسے کے پجاری ہو کر اپنی روایات کو، اپنی اساس، اپنی بنیادوں کو بھولتے جا رہے ہیں ۔۔۔ ہم مادہ پرستی میں اتنا آگے بڑھتے جا رہے ہیں کہ غلط صحیح کا فرق بھولتے جا رہے ہیں ؟؟؟ ہم کو صرف باتوں کی حد تک اپنی قوم، اپنی برادری یا اپنی نسل سے پیار ہے لیکن ہم اپنی قوم، اپنی نسل یا اپنے خون کے لیے قربانی نہیں دے سکتے ۔۔ ہم اغیار کے لیے سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن اپنوں کے لیے کچھ نہیں کر سکتے ۔۔۔ ہمارے پاس صرف یہ بہانہ ہے کہ اپنوں کے ساتھ جب بھی نیکی کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ دھوکا دیتے ہیں ،، ہم کو لوٹ کے کھا جاتے ہیں ؟؟؟ اس طرح کے ہزاروں بہانے ہیں ہمارے پاس،،، ہم نیکی کرتے ہوئے صرف رضائے الہی کو مقصود کیوں نہیں رکھتے ؟؟؟ کیا اغیار ایسا کچھ بھی نہیں کرتے ہمارے ساتھ وہ ابھی یہی سب کچھ کرتے ہیں ۔۔۔ ہم کو اس سوچ کو آگے لے کر چلنا ہے کہ ہم کو اپنی اچھی روایات کو زندہ رکھنا ہے اور جو غلط روایات ہم میں شامل ہو گئی ہیں ان کی اصلاح کرنی ہے تب جا کر قوموں کو بقا نصیب ہوتا ہے صرف سوشل میڈیا پر جی او گجرا کا نعرہ ہم کو زندہ نہیں رکھے گا ہم کو اس سے ایک قدم اگے بڑھنا ہے ۔۔ اس سوچ کو آگے بڑھائیں صرف اپنے اپنے گھر کی اصلاح کا ذمہ اپنے سر لے لیں ساری قوم میں شعور خود بخود آ جائے گا دوسروں کی اصلاح چھوڑ کر اپنی اپنی اصلاح کرنا شروع کر دیں محنت ، محنت اور دیانت ہم کو بچا سکتیں ہیں آؤ مل کر اپنی اصلاح کا عمل شروع کریں
چودھری ظفر حبیب گجر  

Wednesday 7 January 2015

Message for Gujjar Nation in urdu

اس نے کہا ایک ایسی غزل لکھو جس میں میرا نام نہ آئے میں خود آؤں۔۔۔۔ کچھ ایسا ہی حال مسلم اور یورپین تاریخ دانوں نے گجروں کے ساتھ کیا ہے ۔۔ وہ پوری تاریخ بیان کریں گے سب کچھ بتائیں گے۔۔۔ لیکن گجروں کا نام نہیں آنے دیں گے کیسے؟؟؟ میں آجکل ایک کتاب پنجاب کی تاریخ پڑھ رہا ہوں اس کے  مصنف نے اب ریاست کا نام گوجرات لکھا ہے اور راجہ کو بس ہندو راجہ لکھ دیا یا شہزادوں کا خاندان زاور بہت کی کم لفظ راجپوت لکھا ہے ۔۔۔ باقی وہ ہر قوم کی بات کرتا ہے اور بہت تفصیل سے ذکر بھی کرتا ہے ایسا کیوں ہے ؟؟؟ لوگ رہتے گجرات یا گجرانوالہ میں ہیں اور گجروں کو ہی اچھا نہیں سمجھتے ،،، گجر واحد قوم ہے دنیا کی جس کے نام پر اتنے شہر، قصبے یا دیہات آباد ہوں گے کئی علاقے تو ایسے ہیں کہ ان میں اب گجروں کا کوئی بھی گھر آباد نہیں ہے لیکن نام قصبہ گجرات(مظفر گڑھ) ہے ۔ ایسا کیا ہوا تھا؟؟؟ ان سب سوالوں پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ایک ہی بات پتہ چلتی ہے کہ جب انڈیا صرف ویران اور جنگلوں میں اٹا ہوا تھا تو گجروں نے اس سارے خطے کو آباد کیا اس میں شہر بسائے ان کو نام دیے لیکن بعد میں آنے والوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے گجروں سے ان کی زمینوں کو چھینا اور ان پر قابض ہو گئے۔ اور قابض لوگ کبھی بھی مقبوضہ قوم کی تعریف نہین کرتی۔ یہ بات ایسے ہی کہ جیسے پاکستان میں جب بھی نئی حکومت آتی ہے تو وہ سارا الزام پرانی حکومت پر لگا دیتی ہے کہ ساری برائیوں کی جڑ پرانی حکومت ہی تھی۔۔۔ اسی طرح باہر سے آکر آباد ہونے والے لوگوں نے گجروں کو برا کہنا شروع کر دیا۔۔۔ ایک اور کام جب نئی حکومت آتی ہے تو وہ پرانی حکومت کے جاری منصوبوں پر اپنے نام کی پلیٹ لگوا دیتے ہیں ۔۔۔ ایسے ہی بعد مٰیں آنے والوں نے بہت سی جگہوں کو اپنے نام دینے کی کوشش بھی کی ہے ۔۔۔ حکمرانوں کی ایک عادت ہوتی ہے کہ وہ پرانے حکمرانوں کو ہمیشہ نااہل اور بے ایمان ثابت کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اپنے مطلب کے لوگوں کو آگے لے کر آتی ہے ان کو عہدے دیے جاتے ہیں ان کو نوازا جاتا ہے اس طرح وہ باقی لوگوں سے آگے نکل جاتے ہیں اور یہ عہدے اور یہ نوازشات پرانے لوگوں سے چھینی جاتی ہے یہی سب کچھ گجر قوم کے ساتھ ہوا ان کی حکومت کے ساتھ ان کے شہر اور زمینیں چھینی گئی ان کے القاب چھینے گئے ۔۔ اور بہت سے نئے معتبر اور معزز لوگوں کو پید ا کیا گیا جو دراصل اس زمین کے غدار اور بادشاہوں کے وفادار تھے ۔۔۔ اس لیے میری گجر قوم کے نوجوانوں سے درخواست ہے کہ اگر آپ اپنے آباء واجداد کی شان و شوکت واپس چاہتے ہیں تو اس کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے سخت محنت ہر میدان میں ،،، صرف باتوں کی حد تک نہین عملی طور پر محنت خود کو منوائیں جیسے ہمارے آباء اجداد نے محنت کی تھی ویسے جان توڑ محنت کریں شکریہ
چودھری ظفر حبیب گجر 

Thursday 10 July 2014

Ch Abdul Hameed Gujjar

Ch Abdul hameed Gujjar is retired director of Lahore development authority and founder of Gujjar youth forum pakistan.

Gujjar Nation and different Languages

there are so many languages in Gujjar Nation like Persian, Pashto, Punjabi, Gojri, Hindko, Hindi, Rajasthani, Gujrati, Balochi, Sindhi, Pahari, Gurganvi, hiryanvi, chines etc

Wednesday 2 July 2014

Gujjar History 9

قسط 9
اسلام علیکم۔۔۔ اب آریا نسل مظاہر پرستی سے ہندومت میں داخل ہو گئی۔ اور آریا نسل نے ہندو مت کی ترقی و ترویج میں بہت زیادہ خدمات دی اور ہندومت کی خاطر بہت سی جنگیں بھی کیں اسی وجہ سے ہندومت میں آریا نسل کو ان کے آبائی دیس گرجستان کی وجہ سے  گرجر لکھا اور بولا ۔۔ جس کا مطلب ہوتا ہے اپنے دشمن کو تباہ کر دینے والا۔۔ گر مطلب دشمن اور جر مطلب تباہ کر دینے والا۔۔ گر جر اور آہستہ آہستہ یہ لفظ گجر ھوا کئی علاقوں میں میں لہجہ کی وجہ سے یہ گوجر ہو گیا اور عربی میں یہ لفظ جرج، خزر اور کئی طرح سے بولا جانے لگا۔ اور ان کے دیس کو جرجان یا گرجستان کہا جانے لگا اور انگریزی میں جرجان جرجیا ہوا یا جارجیا ہو گیا۔۔ اور وہاں کے لوگ گورجی کہلاتے ہیں
ایک بہت کی مزے کی بات یہ ہے کہ ہماری نسل کو دنیا کی سب سے خوبصورت نسل مانا جاتا ہے اتنے خوبصورت لوگ کہ ہمارے دیس کو پریوں اور جنات کا دیس کہا جانے لگا کہ خوبصورتی اور طاقت میں اپنی مثال آپ تھے ہم لوگ ۔۔۔ جب ہم نے کسی انسان کی تعریف کرنی ہو تو ہم اس کو گورجیئس مطلب بہت خوبصورت، پر کشش اور اگر ہم اس لفظ پر غور کرتے ہیں اور اس کی بنیاد دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ گورجی لوگوں کے لیے بولا جاتا تھا اور پھر خوبصورت لوگوں کو بھی گورجی یا گورجئیس بولا جانے لگا تشبیہ کے طور کر مطلب تم ا تنے خوبصورت ہو جیسے کہ گورجی ۔۔۔ اسی طرح گجر قوم اپنے ساتھ اپنے دیس کی کہانیاں بھی لے کر آئے جو آج تک ہند و پاکستان کے ادب کا حصہ ہیں اور ہم کو جا بجا ایک ایسے دیس کا ذکر ملتا ہے جو دور بہت دور کوہ قاف کے پار بستے ہیں پریوں اور جنوں کا دیس اور یہ کہانیاں آج بھی بچے بہت شوق سے سنتے ہیں اور آج بھی مصور ہمارے دیس کی خوبصورتی میں کھو کے رہ جاتے ہیں ۔۔۔ یہ کہانیاں اور یہ داستانیں گجر قوم کے ساتھ ہندوستان میں آئیں۔۔ ایسے ہی جیسے آج بھی ہمارے بزرگ ہم کو ہجرت سے پہلے کے اپنے گاؤں اپنے شہروں کے قصے سناتے ہیں اور آج بھی ہم لوگ آپس مٰیں یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کا ضلع کونسا تھا میں ہوشیار پور سے ہوں تو میں انبالہ سے وغیرہ ایسے ہی گجر جیسے جیسے ہندوستان میں آتے گئے تو ایک دوسرے سے اس کا علاقہ پوچھتے تھے وہاں کے حالات پوچھتے تھے ۔۔ جس سے ان کہانیوں نے جنم لیا اور ایسے ہی بہت سی گوت بھی وجود میں آئے جس کی سب سے بڑی مثال چیچی ہیں جو کہتے ہیں کہ انہوں نے چیچنیا سے ہجرت کی اور چیچنیا انہی کے نام سے چیچی سے ہے ۔۔ باقی اگلی اقساط میں

والسلام چودھری ظفر حبیب گجر

Tuesday 1 July 2014

Gujjar History 8

قسط 8
اسلام علیکم۔۔ ہم گجر نسل اور آریا نسل کے آپسی تعلق پر بات کر چکے ہیں۔۔ اب ہم آریا نسل پر بات کرتے ہیں۔۔ آریا سنسکرت لفظ ہے جس کا معنی ہے معزز، نوبل، وغیرہ۔۔ ہندو مت میں آریا اس بچے کو بولا جاتا ہے جو منتوں مرادوں سے پیدا ہوا ہو۔۔ بدھ مت مٰیں آریا معزز، عزت دار شخص کو بولا جاتا ہے۔ اور جین مت میں آریا نیک کام کرنے والے کو بولا جاتا ہے۔۔۔
ہم پچھلی قسطوں میں یہ بات تفصیلا بیان کر چکے ہیں۔۔ کہ کاؤکشین نسل نے تین اطراف میں ہجرت کی اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک دائرے کی صورت میں اپنے ارد گرد پھیلنے کے بعد تین اطراف میں زیادہ تیزی سے پھیلے ۔۔ آریا کو دو گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے یونانی آریا اور انڈین آریا۔۔۔

انڈین آریا وہ لوگ ہیں جو کاؤکشین خطہ سے ہجرت کر کے ایران سے ہوتے ہوئے انڈیا پہنچے اور یہ تقریبا 5000 سال پرانی ہجرت ہے۔۔ جب آریا اپنے وطن سے چلے تو یہ اپنے آبائی مذہب توحید پر قائم تھے ۔۔ لیکن جب وہ ایران کے خطے میں پہنچے تو ایران کی قومیں سورج،چاند، آگ اور مظاہر پرست تھے ۔۔ وہاں سے یہ مذاہب آریا نسل یا گجر قوم میں آ گئے۔۔ پھر گرجستان سے آنے والے بعد کے گجروں نے پہلے سے موجود گجروں کو ایران سے ہندوستان میں دھکیل دیا اور ان کے ساتھ ان کا مذاہب سورج، یا چاند وغیرہ کی پرست بھی ہندوستان پہنچی ۔۔ ہندوستان میں لوگ بت پرستی کا رواج تھا۔۔ گجر قوم نے اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی اور ہندوستان کی باقی اقوام کو یا مطیع کر لیا یا دور دور بھگا دیا۔۔ اس وقت سارا ہندوستان اپنے دریاؤں اور زرخیز زمینوں کی وجہ سے جنگلوں اور دلدلوں سے بھرا پڑا تھا۔۔۔ آریا نے ان علاقوں پر اپنی وسیع حکومت قائم کی۔۔۔ گجر قوم نے خود کو آریا کہلانا شروع کیا مطلب معزز لوگ۔۔ اور ان کا دیش آریا ورت کہلاتا تھا اور ان کی زبان سنسکرت کہلاتی تھی جو ہندومت کی مذہبی زبان بھی کہلائی کیونکہ ہندومت کو عروج آریا کی وجہ سے حاصل ہوا تھا۔۔ آریا نسل نے ہندومت میں بہت سہ چیزوں کو فروغ دیا جیسے کہ گائے کو گاؤ ماتا کا درجہ دینا اور اس کے ذبح پر پابندی۔۔ اصل مٰیں آریا قوم گھوڑے کی سواری کی عادی تھی لیکن ہندوستان کی آب و ہوا گھوڑے کے لیے مناسب نہٰیں تھی جس کی وجہ سے گائے بیل کو استعمال کیا گیا اور ان کی نسل کو بچانے کے لیے اس کے ذبح کو منع کر دیا جو وقت کے ساتھ ساتھ مقدس جانور کا درجہ حاصل کر گیا۔۔ جیسے شروع میں مسلمانوں کے پاس گھوڑوں کی کمی کی وجہ سے گھوڑوں کے ذبح کو مکروہ یعنی ناپسندیدہ سمجھا گیا لیکن آج چودہ سو سال بعد مسلمان گھوڑے کے گوشت کو حرام سمجھتے ہیں اسی طرح سے ہندومت میں گاؤ کا تصور آیا اور یہ لفظ دوسری زبانوں میں کاؤ (cow) کہلایا۔۔۔ باقی آئندہ
والسلام چودھری ظفر حبیب گجر

Monday 30 June 2014

Gujjar History 7

قسط 7
اسلام علیکم۔۔ تاریخ کا یہ سفر صدیوں کا سفر ہے یہ کوئی ایک دو دن یا ایک دو سال کی بات نہیں ہے یہ تاریخ صدیوں میں مرتب ہوئی ہے اور اس میں بہت سے عروج و زوال شامل ہیں۔۔ قتل و غارت ، مار دھاڑ، بادشاہتوں کا سفر ہے یہ۔۔ اس لیے اس کو بہت سے تناظر میں دیکھنا پڑے گا۔۔۔ آج سے ہم ایک ایک سوال کے ذریعہ اس عقدہ کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔۔۔
گجر کاؤکشین نسل ہیں۔۔ اس کے بعد یہ نسل تین گروہوں میں مزید تقسیم ہو گئی۔۔ ایک گروہ  ترکی وغیرہ میں، دوسرا سنٹرل ایشیاء اور چائنا کے کچھ علاقوں میں اور تیسرا گروہ ہندوستان میں تھا۔۔ پہلا گروہ ترک کہلایا، دوسرا گروہ یو آچی کہلایا اور تیسرا گروہ آریا کہلایا۔۔۔
اس لیے جب لوگ گجر نسل پر تحقیق کرتے ہیں تو کوئی ان کو آریا بولتا ہے کوئی کہتا ہے کہ نہیں یہ ترک النسل ہیں اور پھر کوئی کہہ دیتا ہے کہ یہ تو یوآچی النسل ہیں۔۔۔ آپ اس کو ترک کہیں یا یوآچی یا آریا بات تو ایک ہی ہے۔۔ یہ تینوں گروہ ایک ہی نسل کاؤکشین سے تعلق رکھتے ہیں۔۔
وقت کے ساتھ ساتھ اور ان کی زبان میں بھی فرق آتا گیا اور موسمی حالات نے ان کی شکل و شباہت پر اثر ڈالا اور اس کی وجہ سے لباس میں بھی فرق آیا۔۔ وقت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے درمیان فرق بڑھتا گیا۔۔۔ دوسری قسط میں جس حسد، تکبر اور دوسری چیزوں کی بات کی تھی انہوں نے بھی اپنا اثر دکھایا، ایک ہی قبیلہ کے دو گروہوں میں حکمرانی کی جنگ نے گجر قوم کے اندر بہت سے ردو بدل کیے اس سے نئے نئے قبیلوں نے جنم لیا نئی نئی حکومتوں نے جنم لیا۔۔ اغیار کی سازشوں کا شکار ہوئے موقع پرستوں نے اپنے فائدے کے لیے ہماری تاریخ تک سے کھیلواڑ کیا۔۔۔ اب اگلی اقساط میں ہم آریا دور سے شروعات کریں گے
والسلام۔۔۔ چودھری ظفر حبیب گجر

Friday 27 June 2014

Gujjar History 6

قسط 6
اسلام علیکم۔۔۔ ایک غلطی فہمی کی تصحیح (میری ذاتی رائے میں) اہل اسلام نے اہل عرب و عجم کو ایک الگ گروہ لکھا ہے اور یورپین نے اس کو الگ گروہ تسلیم نہیں کیا۔۔ اصل میں ہوا یہ ہو گا کہ حضرت نوحؑ اور ان کے ساتھ مسلمانوں کا ایک گروہ (چوتھا گروہ) شام میں ہی بس گیا ہو گا جس سے اہل عرب و عجم نے جنم لیا اور اس گروہ میں ہر طرح کے رنگ و نسل کے لوگ موجود ہوں گے اس لیے اگر ہم عرب کے رنگ و نسل کا جائزہ لیں تو ہم کو پتہ چلتا ہے کہ اس میں نیگرو اور کاؤکشین دونوں نسلوں سے ملتے جلتے لوگ ہیں کہ بعض اوقات لگتا ہے کہ یہ نیگرو نسل ہے اور بعض اوقات لگتا ہے کہ نہیں یہ کاوکشین نسل سے ہیں۔۔۔

ہمارے آباء و اجداد جس خطے میں جا کر آباد ہوئے وہ آجکل سنٹرل ایشیاء اور یوریشیاء کہلاتا ہے اور نیگرو ہندوستان اور افریقہ کی طرف آباد ہوئے اگر سب سے قدیم ہندوستان کی آبادی کو دیکھیں اور افریقین نسلوں کو دیکھیں تو ان میں رنگ و نسل کی مماثلت پائی جاتی ہے۔۔

جیسے جیسے ان خطوں میں آبادیاں بڑھنا شروع ہوئیں تو نئے نئے علاقے آباد ہونا شروع ہو گئے ۔۔ ہم نے سارے سنٹرل ایشیاء ، یوریشیاء اور چائنا کے صوبے سنکیانگ تک کے علاقے آباد کیے دوسری طرف ہم یورپ کو آباد کر رہے تھے جس میں بلغاریہ، چیچنیا، رومانیہ، آرمینیاء اور دوسرے آس پاس کے علاقے شامل تھے۔۔ اور تیسری طرف ہم عراق، ترکستان اور ان علاقوں کی طرف پھیلتے جا رہے تھے جیسے جیسے آبادی کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا ویسے ویسے آپسی لڑائیاں بڑھتی جا رہی تھیں اور نئے علاقوں کی دریافت کی ضرورت بڑھتی جا رہی تھی۔۔ ہماری ایک نسل نے شاہراہِ ریشم جیسا عظیم راستہ دریافت کیا اور اسی راستے سے بڑھتے ہوئے ہندوستان تک آ پہنچے۔۔ انہوں نے سمرقند اور بخارا جیسے عظیم شہروں کو آباد کیا۔۔  اور اسی طرح سارے شمالی ہندوستان پر قابض ہو گئے اور ہندوستان کی قدیم اقوام کو جنوب مشرق کی طرف دھکیل دیا (سری لنکن اور انڈیا کے بعض قبائل کو دیکھ کر آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ رنگ و نسل میں کتنا فرق ہے ) پھر سکندرِاعظم کا وقت آیا تو وہ بھی اسی راستے سے ہندوستان تک پہنچا۔۔ وہ بھی دراصل کاؤکشین نسل تھا لیکن اس کی ساری لڑائی بھی کاؤکشین نسل سے ہی ہے اس لیے کچھ تاریخ دان اس سے گجر نسل کے ابتداء کی بات کرتے ہیں اور کچھ اس سے لڑائیوں کا ذکر کرتے ہیں۔۔ یہ اصل میں ایک ہی نسل کے لوگوں کی آپس میں طاقت کی جنگ تھی۔۔۔ صرف عجم میں ہونے والی اس کی جنگیں دوسرے کسی گروہ کے ساتھ تھیں۔۔
سکندر کے بعد گجروں کے جس قبیلے نے سب سے بڑی حکومت قائم کی شمالی ہندوستان میں وہ کوشان کہلائے ، اسی وقت چائنا کی طرف گجر قبیلہ یو آچی حکمران تھا اور تیسری طرف سے گجر قبائل عرب سے ہوتے ہوئے ایران میں داخل ہو چکے تھے جو کہ ساکا کہلائے اور وہ درہ بولان سے بلوچستان اور وہاں سے سندھ میں داخل ہوئے اور گجرات (آنڈیا) تک پھیلتے چلے گئے اب جو گجر قبائل شاہراہ ریشم سے ہوتے داخل ہوئے وہ کوہ ہندو کش اور کو ہ ہمالیہ اور کوہ قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کے ساتھ پھیلتے چلے گئے کیونکہ وہ سرد ماحول کے عادی تھے اور وہاں سے وسطی ہندوستان کی طرف بڑھنا شروع ہوئے اور جو قبائل درہ بولان سے آئے تھے چونکہ وہ گرم ماحول کو برداشت کرنے کے عادی ہو گئے تھے اس لیے وہ ان علاقوں کو فتح اور آباد کرتے ہوئے وسطی ہندوستان کی طرف بڑھے۔۔
باقی اگلی اقساط میں انشاء اللہ

چودھری ظفر حبیب گجر

Thursday 26 June 2014

Gujjar History 5

قسط 5
اسلام علیکم۔۔۔ حضرت نوحؑ کے بیڑے نے جس جگہ قیام کیا تھا وہ جگہ آجکل شام کہلاتی ہے اور اس پہاڑی کا نام جودی تھا۔ اسلامی تفسیر اور تاریخ دانوں کے مطابق حضرت نوحؑ کے تین بیٹے تھے سام، حام اور یافث۔۔ سام سے اہل عرب و عجم، حام سے اہل حبش جو کہ ھندوستان کی زمین میں آباد ہوئے اور یافث سے اہل ترکستان۔۔۔
اسلامی تاریخ تین بیٹوں سے ساری نسل کو چلاتی ہے اور جدید تحقیق اس کو تین نسلی گروہ مانتی ہے جدید تحقیق اور اسلام تاریخ دو نسلوں پر متفق ہے کاؤکشین اور نگرو پر تیسری نسل کو اسلامی تاریخ اہل عرب و عجم گردانتی ہے اور جدید تحقیق اس کو منگولین کہتی ہے اور شواہد اور رنگ و نسل منگولین والی تحقیق کو ہی ثابت کرتے ہیں کیونکہ یہ نسل چائنا، جاپان، کوریا اور تھائی لینڈ وغیرہ میں کثرت سے پائی جاتی ہے۔

اب آتے ہیں ہم اپنے اصل سوالوں کی طرف۔۔ ہمارے سوال یہ تھے کہ گجر کون ہیں؟؟؟ تو گجر نسل کاؤکشین نسل سے تعلق رکھتی ہے۔۔۔ دوسرا سوال تھا کہ گجروں کا اصل وطن کونسا ہے؟؟؟ تو سارے تاریخی (قدیم و جدید) یہ ثابت کرتے ہیں کہ گجروں کا اصل وطن وہی خطہ ہے جو آجکل ترکستان، داغستان، گرجستان وغیرہ کہلاتا ہے۔۔
اگلی قسط میں ہم گجر قوم کی ہجرت اور دوسرے عوامل پر بات کریں گے

چودھری ظفر حبیب گجر 

Wednesday 25 June 2014

Gujjar History 4

قسط 4
اسلام علیکم۔۔ ہم انسانی تاریخ کے دو باب مکمل کر چکے ہیں ایک تخلیق انسان اور دوسرا حضرت آدمؑ سے حضرت نوحؑ تک کا دور۔۔ اب یہاں سے ایک نئے دور کی شروعات ہوتی ہیں۔ مختلف جگہوں پر مختلف حوالے ہیں کہ حضرت نوحؑ کے ساتھ کتنے لوگ تھے لیکن ہم 80 مرد و عورت  کے گروہ کو صحیح مان کر چلتے ہیں کیونکہ اس کے اوپر کافی زیادہ لوگ متفق ہیں اور اکثر علماء کرام بھی یہی حوالہ دیتے ہیں۔۔

تاریخِ انسانی کے ماہر حضرت نوحؑ کے ساتھیوں کو ان کی شکل و صورت کی وجہ سے تین بڑے گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں

1- کاؤ کشین۔۔ جو جارجین یا گرجستان کی زبان کا لفظ ہے اور اسی لفظ کو سنسکرت زبان میں کوشان بولا گیا اور بدلتے وقت کے ساتھ یہ لفظ کسان اور کسانہ کی شکل میں باقی رہ گیا۔۔ یہ دنیا کی سب سے خوبصورت نسل ہے اپنے رنگ، اور نین و نقش کی وجہ سے سیاہ بال سرخ و سفید رنگ،، یہ نسل آج بھی اپنی اصل حالت میں گرجستان (جارجیا) آرمینیاء، چیچنیا وغیرہ میں پائی جاتی ہے اور اپنے ہزاروں سال پرانے زبان، لباس اور رسم و رواج پر قائم ہے ان کا خطہ یورپ اور ایشیاء کے سنگم پر آباد ہے اس لیے یہ خطہ یوریشیاء بھی کہلاتا ہے اسی خطے میں داغستان یا کوہِ قاف کا علاقہ بھی ہے جس کو گجر قوم کا آبائی وطن کہا جاتا ہے اسی لیے کوہِ قاف کے متعلق ہزاروں کہانیاں برصغیر کے لوگوں کی زبانوں پر ہیں جن اور پریوں کا دیس یہ لوگ آج بھی اپنی خوبصورتی میں بے مثال ہیں

2- دوسرے گروہ کو منگولین بولا جاتا ہے یہ چپٹے ناک اور زرد رنگت والی نسل ہے جو کوریا، جاپان، چائنا اور مشرقِ بعید میں آباد ہے

3- تیسرے گروہ کو نیگرو کہتے ہیں اور یہ نسل افریقہ میں آباد ہے

یہ تین بنیادی گروہ ہیں انسانوں کے۔۔۔ بعد میں ان کے ایک دوسرے کے ملاپ سے الگ الگ گروہ جنم لیتے رہے ۔۔ جیسے ایک نیگرو اور کاؤکشین کے ملاپ سے پیدا ہونے والا بچہ یا کاؤکشین اور منگولین کے ملاپ سے پیدا ہونے والا بچہ، یا منگولین اور نیگرو کے ملاپ سے پیدا ہونے والی نسل، یا ان نسلوں کے ملاپ کے بعد میں پھر سے ملاپ ہونے کے بعد پیدا ہونے والی نسلوں نے انسانوں کے بہت سے گروہوں اور زبانوں کو جنم دیا۔۔ اس موضوع پر ہم اگلی قسط میں بات کریں گے

چودھری ظفر حبیب گجر


اختلاف اور اصلاح کی بہت گنجائش ہے تنقید یا میں نہ مانوں کی بجائے اپنا نقطہ نظر اور اپنی تحقیق کو مثبت انداز میں سامنے لے کر آئیں شکریہ

Friday 30 May 2014

Message to Gujjar Nation

we have different identities like our country, religious,  our language, our cities etc like i am Muslim, Pakistani, Punjabi, Lahori, Gujjar, Sunny, Chhawri etc.... these are all facts and our people known us by our these entities... these identities not a effect on my Gujjar identity.... we should go forward and work hard in every field of life...