Bhatti Bhatia and Bhati clan
تحریر و تحقیق احمد وقار گجر
بھاٹی ، بھٹی ، بھاٹیہ گجر خاندان
راجہ بھاٹی راوء کی اولاد بھٹی، بھاٹیہ گجر کہلائی.
پہلی صدی قبل مسیح میں گجر راجہ گج کھشتری کی حکومت تھی. اس نے شہر گجنی (غزنی ) آباد کیا. گج کے معنی ھاتھی کے ھیں. گجگاہیہ گجر گوت ھے.اس قدیمی خاندان کی آج صد ھا شاخیں ھیں. شاھان گجر کے مصنف ابوالبرکات محمد عبدالمالک نے لکھا ھے کہ گجگاہیہ سکندر کے حملے کے وقت راجہ پوڑ (پورس) کی فوج میں ہاتھیوں کے سپہ سالار تھے. یہ بھی صحیح ھے کیونکہ آریہ ورت کا شمال مغربی علاقہ قبل مسیح سے لے کر آٹھویں صدی عیسوی تک سمہ ، سومرو، بھاٹی بھٹی، گجگاہیہ، کشان وغیرہ گجر خاندانوں سے ھی متعلق رھا ھے. اس طرح ایک خاندان کے زوال پر دوسرا برسرِ اقتدار آتا رھا. گجگاہیہ کے معنی " ہاتھی نشین " کے ھیں. انھی گجر سپہ سالاروں کی اولاد کا گوت گجگاہیہ گجر کہلوایا. کتاب ضلع گجرات کے مصنف ڈاکٹر احمد حسین احمد قریشی صفحہ 129،130 میں بحوالہ کتاب آئینہ گجرات از شیخ کرامت اللہ لکھتے ھیں کہ کہ موجودہ شہر بارے بتایا جاتا ھے کہ یہ سکندر اعظم کے وقت بھی آباد اور اسے گجرات کہتے تھے. راجہ پوڑ گجر (پورس) کے ہاتھیوں کا اصطبل اسی جگہ ھو گا. اسی لئے گجگاہیہ ایک قوم کا نام ھے. جو پرانے وقتوں میں فیل بان ھوتے تھے. گجگاہیہ قوم کے کچھ لوگ آج بھی اس شہر کے پرانے باسی ھیں. گجرات کا موجودہ نام اسی قوم کے نام پر سکندر اعظم سے چلا آرھا ھے. اس سے ثابت ھے کہ کی راجہ پوڑ گجر تھا اور اس کے سپہ سالار بھی گجر تھے اور یہ گجگاہیہ (ھاتھی نشین ) کہلاتے تھے. اور ان کی فوج گرجر فوج کہلاتی تھی. انھی گجروں کے نام پر آج ضلع گجرات آباد ھے. اسی خاندان کے ایک راجے نے اپنے آپ کو راجہ گج لکھا. اسی لئے چھٹی صدی عیسوی کے برہمن راجہ مہاراجہ ھرش کے درباری شاعر نے طنزیہ کہا ھے" مہاراجہ ھرش کا باپ پربھارکر وردھن گندھار (قندھار ) کے ھاتھی کے لیے مہلک بیماری تھی. " اس سے واضح ھے کہ گجگاہیہ گجر خاندان چھٹی صدی عیسوی میں شمالی بلوچستان، قندھار تک حکومت کرتے تھے. مختصراً یہ کہ راجہ گج یادو اپنے باپ ارجن یادو کے بعد تخت نشین ھوا. یہ کھشتری یادو ونشی آہیر کہلاتے تھے. پہلی صدی عیسوی میں راجہ گج کی اولاد میں راجہ شالیواھن اس علاقہ کا راجہ ھوا. اس کا دارالخلافہ سیالکوٹ تھا. راجہ شالیواھن کو بعض تاریخوں میں کھشتری اور بعض میں برھمن لکھا ھے. قدیم تاریخوں میں اس کو پیٹھن بھی لکھا ھے. لیکن اس کا کھشتری ماننا ھی صحیح ھے. کیونکہ زمانہ قدیم میں کھشتری سے مراد صرف گجر قوم ھے. راجہ شالیواھن اجین کے راجہ بکرم جیت پنوار گجر 75 قبل مسیح تا 43 عیسوی کا ہمعصر تھا. اس نے شہر سیالکوٹ کو بسایا. اس نے پورا پنجاب اور تھر ریگستان مفتوح کیا. 43 عیسوی میں اس نے اجین پر حملہ کرکے راجہ بکرما جیت گجر کو مار دیا. فتوحات کی ھوس نے اس نے دکن کا رخ کیا اس کی گرجر فوج دریائے نربدا کو پار کرنے لگی تو پنوار گجروں نے تیروں کی بارش کر دی. شالیواھن زخمی ھو گیا اور دریا میں ڈوب کر مر گیا. اس کی فوج بھی تقریباً ختم ھو گئی. اس کے بعد سیالکوٹ کے تخت پر اس کے بیٹے راجہ بل بند کو بٹھایا گیا مگر فوراً ھی راجہ مہراج کی اولاد سے ایک بہادر شخص کنشک کشان گجر نے کشمیر سے نکل کر سیالکوٹ کے تخت پر قبضہ کر لیا. جس طرح کنشک کشان کے اجداد کو راجہ بل بند کے اجداد نے گندھار اور کشمیر میں پناہ لینے پر مجبور کیا تھا. اسی طرح کنشک کشان نے آہیروں کو سیالکوٹ پنجاب سے نکال دیا. آہیروں کی کثیر آبادی ملتان کے پاس ریگستان میں آ گئی. جہاں راجہ بل بند کے بیٹے بھاٹی راوء نے اپنے نام پر شہر" بھیٹز " آباد کیا. اور آئندہ یہ خاندان بھاٹی بھاٹیہ اور بھٹی کہلایا. اسی خاندان کے بھٹی یا بھاٹی ریاست سوات اور سرحد میں انھی آہیر راجاؤں کی اولاد ھیں اور اپنے آپ کو گجر کہلواتے ھیں. راجہ شالیواھن کی تین رانیاں تھی. رانی اچھراں، رانی لونا اور رانی کوکلاں. رانی اچھراں سے پورن پیدا ھوا جو کہ پورن بھگت کے نام سے مشہور ھوا. رانی لونا سے راجہ رسالو گجر پیدا ھوا. سیالکوٹ کا ایک محلہ اسی سردار کے نام پر آج تک " رسالو گجر " کہلاتا ھے. رانی کوکلاں سے سے بل بند تھا. جس نے سیالکوٹ چھوڑ کر ریگستان میں پناہ لی اور جہاں اس کے بیٹے بھاٹی راوء نے قلعہ تعمیر کیا. انڈیا کا موجودہ شہر ضلع بلند جو صوبہ دلی میں تھا. اس علاقہ کو بھی بھٹیز کہتے ھیں. یہاں تین سو پینسٹھ ( 365 ) گاؤں بھٹی گجروں کے ھیں جو اب بھی ھیں. محمود غزنوی اور تیمور کے حملوں کے وقت بھٹیز اور بھٹینڈہ سے ھجرت کر کے یہ لوگ گنگا جمنا کے دوآبہ میں جا کر بس گئے. دلی کے چاروں طرف بھی بھاٹی، بھٹی گجروں کی کثیر آبادی تھی جس کی وجہ سے یہ علاقہ تاریخ میں بھٹیز کہلایا. جب یہاں اور آبادی گجروں کی ھوئی تو اس علاقہ کا نام گجرات ھوا. سولھویں صدی میں انھوں نے پھر عروج حاصل کیا لیکن بابر نے انہیں دبا دیا. اٹھارویں صدی میں یہ پھر آزاد ھو گئے. آخر انگریزوں نے انھیں سابقہ اسناد کی بنا پر تعلقہ دار مان لیا. مختصراً راجہ بھاٹی راوء 90 عیسوی سے لیکر راجہ ابھیاس راوء 605 عیسوی تک بھاٹی گجروں کی حکومت رھی ھے. راجہ ابھیاس کے زمانہ میں ملک میں خانہ جنگی رھی. تھانیسر کے برھمنوں نے عروج حاصل کر کے لاھور تک تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا. تھانیسر کا برھمن راجہ پربھارکر وردھن بیک وقت دریائے راوی کے علاقے میں سیالکوٹ کے ھن گجروں سے، گندھار ملتان کے راجاؤں سے ،مالوہ میں گجرات کے گجروں سے اور وندھیا چل کی طرف لاٹ کے راشٹر کوٹوں سے لڑتا رہا. اس لئے کتاب ھرش چرتر میں اس کی بابت آیا ھے. "کہ وہ گجروں کی نیند بھنگ کرنے والا تھا". یہ اس نے بھاٹی گجر راجاؤں کے بارے میں کہا. تاریخ پاکستان کا مصنف یحییٰ امجد صفحہ 382، 383 میں نقشے میں گجر حکومت کا ذکر کرتا ھے اور لکھتا ھے کہ پربھارکر وردھن کے زمانہ میں رائے یعنی بھاٹی گجروں کی حکومت سندھ، بلوچستان اور پنجاب پر تھی. اس کے متوازی تھانیسر کے وردھن خاندان نے پنجاب میں عروج حاصل کر لیا. اور پھر ھرش چرتر کی تحریر کا حوالہ دیا ھے. گجر بھاٹی راجے اپنے نام کے ساتھ رائے بھی لکھتے تھے. آخر کار اس وقت کا گجر راجہ ابھیاس راوء برھمن راجہ کے ھاتھوں تنگ ھو کر اپنی مضبوطی کی تدابیر کرنے لگا. اس نے قلعہ امروٹ بنایا اور دریائے ھاکڑا کے پاس پنوار خاندان کے گجروں کو اپنا مطیع بنایا اور لودھرے گجروں کو مطیع کرکے ان کے شہر لودھراں کو بھی تصرف میں لے آیا. اور شمالی سندھ کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کیا. آخر 605 عیسوی میں اس کا انتقال ھو گیا.
آئین اکبری کے صفحہ 759 میں لکھا ھے کہ " بنگال کے مشرق میں ایک علاقہ ھے جسے بھاٹی کہتے ھیں. "
بارھویں صدی میں ایک بھاٹی سردار راوء کوشل مہاراجہ پرتھوی راج چوہان گجر کا سپہ سالار تھا. پاکستان اور انڈیا میں بھاٹی، بھٹی اور بھاٹیہ گجروں کی کافی بڑی تعداد آباد ھے. انھی بھٹی گجروں کی وجہ سے دھلی کا ایک بڑا علاقہ گجرات کہلوایا.
Comments
Post a Comment