مقصد تخلیق اور مقاصد شریعت
مقصد تخلیق اور مقاصد شریعت
نظام اور نظام حکومت کی بحث میں جانے سے پہلے ہم انسان کے
مقصد تخلیق اور مقصد شریعت پر بات کریں گے کیونکہ جب تک ہم انسان کی تخلیق اور اس
کے لیے شریعت یا نظام الہی کیوں ضروری ہے اس بات کو نہیں سمجھیں گے ہم اس سارے
نظام کو نہیں سمجھ سکتے ۔
ہم یہ واضح کریں گے
کہ مقاصد شریعت اور مقصد تخلیق میں کیا فرق ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں یہ بتایا
جائے گا کہ انسانوں کی تخلیق کا مقصد امتحان وآزمائش ہے جب کہ مقصد شریعت رہنمائی
اور قیام عدل ہے۔ ہمارے دینی لٹریچر میں دونوں موضوعات، مقصد تخلیق اور مقاصد
شریعت پر الگ الگ کافی کام ہوا ہے مگر اس پر بحث نہیں ملتی کہ دونوں کے تقاضے
مختلف ہوں تو کس کو ترجیح دی جائے گی۔ یہ بحث ضروری ہے۔ اس بات کی وضاحت کے بعد کہ
مقصد تخلیق کے تقاضے مقاصد شریعت کے تقاضوں پر مقدم ہیں یہ بتایا جائے گا کہ اس
اصول کی خلاف ورزی، کہ مقصد تخلیق کے تقاضوں کو مقاصد شریعت کے تقاضوں پر مقدم
رکھا جائے، کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں۔ اپنی یہ رائے برائے غوروفکر پیش کی جائے گی
کہ حالیہ دورمیں اسلام کے نام پر تشدد اور تخریبی کارروائیوں کے بعض واقعات
بالخصوص مسلکی اختلاف کی بنا پر قتل وغارت بڑی حد تک ا سی خلاف ورزی کا نتیجہ ہیں۔
جو لوگ اسلامی خلافت کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیئے ھوے ھئں وہ بھی
اس اصول کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔ اسلا م اور مسلمانوں کو
ان کاروائیوں سے جو نقصان پہنچ رہا ہے ان کا سد باب اسی وقت ممکن ہے جب ہر خاص
وعام یہ سمجھ لے کہ مقاصد شریعت کی تحصیل مقصد تخلیق کو ملحوظ رکھتے ہوئے کی جانی
چاہئے۔
اس بات پر زور دیا جائے گا کہ تقلید یا سیاسی گہماگہمی کے سبب
کسی فرد کو ا ن مسائل میں جن کے بارے میں نص نہ موجود ہو عقل وفطرت کی آواز کو
نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ کی کتاب اور اسوۂ رسول کا مطالعہ کرتے رہنے والے
کے لئے یہ آواز ہر دلیل اور دباؤ پر بھاری رہنی چاہئے۔ مقصدِ تخلیق یعنی آز
مائش اگر ایک طرف آزادیِ انتخاب کو مستلزم ہے تو دوسری طرف اِجتہاد کا بھی طالب
ہے۔ آ زمائش میں کامیابی کے لیے زندگی کے ہر موڑ پر و ہ راستہ اختیار کرنا ہے جو
خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔ چوں کہ قرآن و سنّت میں دی گئی ہدایات محدود ہیں اور وہ
مواقع لا محدود ہیں جن میں ہدایت درکار ہوتی ہے، لہٰذا اجتہاد سے مفر نہیں۔ ہر
مسلمان کو کوشش کرنا چاہیے کہ پیش آمدہ مسائل میں اﷲ کی مرضی معلوم کرے۔اسی کوشش
کا نام اجتہاد ہے۔
اللہ تعالی نے انسانوں کو آزمانے کے لئے امتحان گاہ دنیا میں
بھیجا تو ان کو عدل پر قائم رہنے اور عدل قائم رکھنے کی تاکید کی اور عدل کی راہ د
کھانے کے لئے پیغمبروں کا سلسلہ قائم کیا۔ شریعت ان تعلیمات کا مجموعہ ہے جو عدل
پر قائم رہنے اور عدل قائم رکھنے کے لئے دی گئی ہیں۔ مقصد تخلیق اور مقاصد شریعت
کا باہمی تعلق اہمیت کا حامل ہے۔ انسانوں کی فلاح اس میں ہے کہ عدل قائم ہو اور
قائم رہے۔ کیسے؟ اس طرح کہ انسانوں کے امتحان کا کام بھی جاری رہے۔ نظری طور پر اس
بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ مقاصد شریعت کی تحصیل ا س طرح کی جائے کہ مقصد تخلیق
یعنی امتحان وآزمائش کے کام میں خلل پڑے یا یہ کام معطل ہوجائے، مثال کے طور پر
اگر کسی انسان یا انسانی گروہ پر شریعت جبراً نافذ کی جائے، بغیر اس کے کہ اس نے
شریعت کو قبول کیا ہو، تو ظاہر ہے کہ اسے امتحان نہیں کہا جاسکتا۔ مقصد تخلیق فوت
ہوجائے گا۔
اس ضمن میں اس نکتہ پر بھی غور کیا جائے گا کہ
مقاصد شریعت ایک باہم مربوط اور ہم آہنگ مجموعہ ہیں، ان کی تحصیل کا مطلوب طریقہ
یہ ہے کہ مجموعی طور پر متوازن تحصیل ہو نہ یہ کہ ایک پہلو پر اتنا زور دیا جائے
کہ دوسرا پہلو دب جائے۔ ا س بات کو مثالوں کے ساتھ واضح کیا جائے گا تاکہ معاصر
سیکولر نظریات کے زیر اثر اسلامی جدوجہد غیر متوازن اسالیب نہ اختیار کرے۔
مقصد تخلیق
اللہ تعالی نے قرآن حکیم کی متعدد آیات میں بتایا ہے کہ
انسانو ں کی تخلیق اور انہیں زمین پر آباد کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کو آزمایا
جائے۔
تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِہِ الْمُلْكُ۰ۡوَہُوَعَلٰي كُلِّ
شَيْءٍ قَدِيْرُۨ۱ۙ الَّذِيْ خَلَقَ
الْمَوْتَ وَالْحَيٰوۃَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۰ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ
الْغَفُوْرُ۲ۙ (ملک:۱۔۲)
’’نہایت بزرگ وبرتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں (کائنات کی) سلطنت
ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم
لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی
ہے اور درگزر فرمانے والا بھی)۔
وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ
لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ
سَرِيْعُ الْعِقَابِ۰ۡۖ وَاِنَّہٗ
لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (انعام: ۱۶۵)
’’وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض
کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیئے ، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں
تمہاری آزمائش کرے۔ بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر
کرنے والا او رحم فرمانے والا بھی ہے‘‘۔
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَۃً لَّہَا
لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔(سورہ کہف:۷)
’’یہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے ہم نے زمین کی زینت
بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں، ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘۔
امتحان زندگی میں کامیابی کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کی
جائے۔ اسی لئے فرمایا:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ(ذاریات:۶۵)
’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لئے پیدا
نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔
عبادت وہی معتبر ہے جو شریعت کے مطابق ہو۔
قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْہَا جَمِيْعًا۰ۚ فَاِمَّا
يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ
ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ
ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ (بقرہ:۳۸)
’’ہم نے کہا تم سب یہاں سے اتر جاؤ، پھر جو میری طرف سے کوئی
ہدایت تم تک پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لئے کسی خوف
اور رنج کا موقع نہیں رہے گا‘‘۔
ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ
فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۔(سورہ جاثیہ:۱۸)
’’اس کے بعد اے نبیﷺ ہم نے تم کو ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر
قائم کیا۔ لہٰذا تم اس پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو علم
نہیں رکھتے‘‘۔
شریعتیں بھی امتحان وآزمائش کے لئے دی جاتی ہیں۔
وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا
لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ الْكِتٰبِ وَمُہَيْمِنًا عَلَيْہِ فَاحْكُمْ
بَيْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَہُمْ عَمَّا جَاۗءَكَ مِنَ الْحَقِّ۰ۭ لِكُلٍّ
جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَجَعَلَكُمْ
اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا
الْخَيْرٰتِ۰ۭ اِلَى اللہِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ
بِمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ (مائدہ: ۴۸)
’’پھر اے نبیﷺ ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر
آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور
اس کی محافظ ونگہبان ہے لہذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات
کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے منھ موڑ کر ان کی خواہشات کی
پیروی نہ کرو۔ ہم نے تم (انسانوں) میں سے ہر ایک کے لئے ایک شریعت اور ایک راہ عمل
مقرر کی۔ اگرچہ تمہارا رب چاہتا تو سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا لیکن اس نے یہ
اس لئے کیا کہ جو کچھ تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے لہذا بھلائیوں
میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو آخر کار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر
جانا ہے پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتادے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو‘‘۔
عبادت انعام کی مستحق اسی صور ت میں ہے جب وہ آزادانہ اختیار
پر مبنی ہو۔
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ
اٰيٰتِيْ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ
يَحْزَنُوْنَوَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا
بِاٰيٰتِنَا وَاسْـتَكْبَرُوْا
عَنْہَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ
النَّارِ۰ۚ ہُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْن۔(اعراف:۳۶)
’’اے بنی آدم یا درکھو اگر تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایسے
رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنارہے ہوں تو جو کوئی نافرمانی سے بچے گا او
راپنے رویہ کی اصلاح کرلے گا، اس کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے، اور جو
لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلے میں سرکشی برتیں گے وہی اہل دوزخ
ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۰ۭ اَفَاَنْتَ
تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ (یونس:۹۸)
’’اگرتیرے رب کی مشیت ہوتی (کہ زمین میں سب مومن وفرماں بردار
ہی ہوں) تو سارے اہل زمین ایمان لے آتے، پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ
مومن ہوجائیں؟‘‘۔
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ
الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۰ۚ فَمَنْ
يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۰ۭ وَاللہُ
سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ (بقرہ: ۲۵۶)
’’دین کے معاملہ میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے، صحیح بات غلط
خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر
ایمان لے آیا اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور
اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔
’’فلذلک فادع واستقم کما أمرت ولا تتبع أہواۂم وقل آمنت
بما أنزل اللہ من کتابٍ وأمرت لأعدل بینکم اللہ ربنا وربکم لنا أعمالنا ولکم
أعمالکم لا حجۃ بیننا وبینکم اللہ یجمع بیننا وإلیہ المصیر‘‘ (شوری: ۵۱)۔
’’(اے محمدﷺ)اب تم اسی دین کی طرف دعوت دو اور جس طرح تمہیں
حکم دیا گیا ہے اس پر مضبوطی سے قائم ہوجاؤ، اور ان لوگوں کی خواہشات کی اتباع نہ
کرو اور ان سے کہہ دو کہ : ’’اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور
تمہارا رب بھی۔ ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے۔ ہمارے
درمیان کوئی جھگڑا نہیں۔ اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو
جانا ہے)۔
امتحان وآزمائش کے لئے آزادئ اختیار ضروری ہے، اگرچہ
پسندیدہ بات یہی ہے کہ آدمی عقل سے کام لے اور اچھائی اختیار کرے لیکن اگر کوئی
اس کے خلاف راہ اختیار کرتا ہے تو اسے ایسا کرنے دیا جائے گا، کیونکہ آزادی
اختیار چھین کر صحیح راہ پر چلا دینا مقصد تخلیق یعنی امتحان وآزمائش سے میل نہیں
کھاتا۔
ہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ۰ۭ فَمَنْ كَفَرَ
فَعَلَيْہِ كُفْرُہٗ۰ۭ وَلَا يَزِيْدُ
الْكٰفِرِيْنَ كُفْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ اِلَّا مَقْتًا۰ۚ وَلَا يَزِيْدُ
الْكٰفِرِيْنَ كُفْرُہُمْ اِلَّا خَسَارًا۔ (فاطر:۳۹)
’’وہی تو ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے ، اب جو
کوئی کفر کرتا ہے اس کفر کا وبال اسی پر ہے۔ اور کافروں کو ان کا کفر اس کے علاوہ
کوئی ترقی نہیں دیتا کہ ان کے رب کا غضب ان پر زیادہ بھڑکتا چلا جاتا ہے اور
کافروں کے لئے خسارہ میں اضافے کے سوا کوئی ترقی نہیں‘‘۔
قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ
وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۰ۙ اِنَّآ
اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِيْنَ نَارًا۰ۙ اَحَاطَ بِہِمْ
سُرَادِقُہَا۰ۭ وَاِنْ يَّسْتَغِيْثُوْا يُغَاثُوْا بِمَاۗءٍ كَالْمُہْلِ
يَشْوِي الْوُجُوْہَ۰ۭ بِئْسَ
الشَّرَابُ۰ۭ وَسَاۗءَتْ مُرْتَفَقًا (سورہ
کہف: ۲۹)
’’کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے
مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے۔ ہم نے انکار کرنے والے ظالموں کے لئے ایک
آگ تیار کررکھی ہے جس کی لپٹیں انہیں گھیرے میں لے چکی ہیں۔ وہاں اگر وہ پانی
مانگیں گے تو ایسے پانی سے تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا اور ان کا
مونھ بھون ڈالے گا، بدترین پینے کی چیز اور بہت بری آرام گاہ!‘‘۔
مقاصد شریعت
شریعت انسانوں کی دنیوی اور اخروی فلاح کا چارٹر ہے۔ شریعت پر
عمل اور اس کے نفاذ سے عدل وقسط کا قیام عمل میں آتا ہے، آخرت میں اچھے انجام کے
ساتھ دنیا میں بھی خوش حالی نصیب ہوتی ہے۔ دنیا سے ظلم وفساد کا ازالہ عمل میں
آتا ہے اور انصاف واصلاح کا دور دورہ ہوتا ہے۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا
مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۰ۚ وَاَنْزَلْنَا
الْحَدِيْدَ فِيْہِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللہُ
مَنْ يَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَيْبِ۰ۭ اِنَّ اللہَ
قَوِيٌّ عَزِيْزٌ (سورہ
حدید:۲۵)
’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایت کے ساتھ
بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔ اور
لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لئے منافع ہیں، یہ اس لئے کہا گیا کہ
اللہ کو معلوم ہوجائے کہ کون اسے دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا
ہے، یقیناًاللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے‘‘۔
طٰہٰمَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓياِلَّا تَذْكِرَۃً
لِّمَنْ يَّخْشٰى(سورہ
طٰہٰ: ۱۔۲)
’’طٰہٰ ہم نے یہ قرآن تم پر اس لئے نازل نہیں کیا ہے کہ تم
مصیبت میں پڑجاؤ یہ تو ایک یاددہانی ہے ہر اس شخص کے لئے جو ڈرے‘‘۔
فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي۱۲۳ وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً
ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى(طٰہٰ:۱۲۲۔۱۲۳)
’’پھر جو میری ہدایت پر چلے گا وہ نہ گمراہ ہوگا نہ بدحال اور
جو میری یاد سے کترائے گا اس کی دنیوی زدگی تنگ حال ہوگی اور قیامت کے دن ہم اسے
اندھا اٹھائیں گے‘‘۔
آزمائش کے طور پر جو آزادی دی گئی ہے اس سے یہ امکان پیدا
ہوتا ہے کہ آدمی برائی کی راہ اختیار کرے جس سے زمین میں صلاح کی جگہ فساد رونما
ہو۔
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ
اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ
يَرْجِعُوْنَ(روم:۴۱)
’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں
کی کمائی سے تاکہ مزا چکھایا جائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز
آئیں‘‘۔
اس کا علاج یہ ہے کہ قوم کے سمجھدار اور صالح لوگ فساد کے
انجام بد سے آگاہ کرکے فساد سے روکیں۔
فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِكُمْ اُولُوْا
بَقِيَّۃٍ يَّنْہَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْاَرْضِ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّنْ
اَنْجَيْنَا مِنْہُمْ۰ۚ وَاتَّبَعَ
الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِيْہِ وَكَانُوْا مُجْرِمِيْنَ (ہود:۱۱۶)
’’پھر کیوں نہ ان قوموں میں جو تم سے پہلے گذر چکی ہیں ایسے
اہل خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے
بھی تو بہت کم جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچالیا ورنہ ظالم لوگ تو انہیں مزوں کے
پیچھے پڑے رہے جن کے سامان انہیں فراوانی کے ساتھ دیئے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر
رہے‘‘۔
یہی نکتہ ہے جس کا سہارا لے کر فرشتوں نے یہ سوال اٹھا دیا
تھا کہ جب اس نئی مخلوق کے ہاتھوں فساد مچائے جانے کا امکان ہے تو اسے بنایا ہی
کیوں جارہا ہے:
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً۰ۭ قَالُوْٓا
اَتَجْعَلُ فِيْہَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْہَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ۰ۚ وَنَحْنُ
نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ۰ۭ قَالَ اِنِّىْٓ
اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔(بقرہ:۳۰)
’’پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا
تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ’’انہوں نے عرض کیا‘‘ کیا آپ زمین
میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں
کرے گا؟ آپ کی حمدوثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس تو ہم کرہی رہے ہیں،
فرمایا: ’’میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے‘‘۔
اللہ تعالی کو فساد ناپسند ہے۔ وہ زمین میں صلاح چاہتا ہے۔ اس
نے اصلاح کے طریقے بتا دیئے اور فساد کے انجام بد سے آگاہ کردیا۔ مگر حکمت الہی
اس کی متقاضی ہوئی کہ اصلاح کا کام انسان انجام دیں اور اس کارگزاری پر ان کو
انعام دیا جائے۔ جو فسادی بنیں وہ اپنی غلط کاری کی سزا پائیں گے اس دنیا میں اور
اس کے بعد آخرت میں بھی، مگر اصلاح ان پر زبردستی مسلط کرنے کا اختیار کسی کو
نہیں دیا گیا ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُہٗ فِي الْحَيٰوۃِ
الدُّنْيَا وَيُشْہِدُ اللہَ عَلٰي مَا فِيْ قَلْبِہٖ۰ۙ وَھُوَاَلَدُّ
الْخِصَامِ وَاِذَا تَوَلّٰى
سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْہَا وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۰ۭ وَاللہُ لَا
يُحِبُّ الْفَسَادَ(بقرہ:۲۰۴۔۲۰۵)
’’انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے کہ جس کی باتیں دنیا کی زندگی
میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں اور اپنی نیک نیتی پر باربار وہ خدا کو گواہ
ٹھہراتا ہے، مگر حقیقت میں وہ بدترین دشمن حق ہوتا ہے، جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا
ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لئے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو
غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے حالانکہ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا‘‘۔
فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِ۔ وَلَا تُطِيْعُوْٓا اَمْرَ
الْمُسْرِفِيْنَ۔ الَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ(الشعراء:۱۵۰۔۱۵۲)
’’اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو، ان بے لگام لوگوں کی اطاعت
نہ کرو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور کوئی اصلاح نہیں کرتے‘‘۔
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ
اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ
يَرْجِعُوْنَ(روم:۴۱)
’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں
کی کمائی سے تاکہ مزا چکھایا جائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز
آئیں‘‘۔
مقصد شریعت چاہتا ہے کہ زمین ظلم و فساد سے پاک رہے مگر،
مقصدِ تخلیق کے پیش نظر، یہ نہیں مناسب تھا کہ ظلم و فساد کے تمام راستے مسدود کر دیے
جا تے۔ چنانچہ ایک کے ظلم سے دوسرے کو بچانے اور سماج کو فسادیوں سے محفوظ رکھنے
کے لیے، حدود و تعزیرات کے ذریعے روک تھام کے ساتھ ظلم و فساد کی آ زادی کو باقی
رکھّا گیا۔ سورہِ روم کی مذکورہ بالا آیت میں ا یسا کرنے کی ایک اور حکمت کا بھی
ذکر ہے: دنیا میں ظلم و فساد کے برے نتائج وارننگ کا کام کرتے ہیں۔
مقصد تخلیق اور مقاصد شریعت کے فرق کی اہمیت
ہمارے لئے مقصد تخلیق اور مقاصد شریعت میں اس فرق کو سمجھنا
ضروری ہے تاکہ ہم اپنے اسلامی مشن، دعوت الی الخیر، کی انجام دہی میں اس حکمت الہی
کو پامال نہ کریں جو اس فرق کی متقاضی ہوئی ہے، لوگوں تک اس ہدایت کو پہنچانا جو
اللہ نے اپنے آخری رسول محمدﷺ کے ذریعہ رہتی دنیا تک کے لئے بھیجی ہے۔ اسی پر ہم
مامور ہیں۔ ماننا نہ ماننا، ان ہدایات پر عمل کرنا یا نہ کرنا، یہ ان کا کام ہے
جنہیں ہدایت الہی پہنچائی جارہی ہے، ہم اس پوزیشن میں نہیں کہ انہیں ہدایات الٰہی
کو ماننے یا ان پر عمل کرنے پر مجبور کرسکیں، اللہ تعالی نے ہمیں اس کا اختیار
نہیں دیا ہے۔
مَنْ كَفَرَ فَعَلَيْہِ كُفْرُہٗ۰ۚ وَمَنْ عَمِلَ
صَالِحًا فَلِاَنْفُسِہِمْ يَمْہَدُوْنَ۴۴ۙ لِيَجْزِيَ
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْ فَضْلِہٖ۰ۭ اِنَّہٗ لَا
يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ (روم:۴۴۔۴۵)
’’جس نے کفر کیا ہے اس کے کفر کا وبال اسی پر ہے اور جن لوگوں
نے نیک عمل کیا ہے اور وہ اپنے ہی لئے (فلاح کا راستہ) صاف کررہے ہیں تاکہ اللہ
ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو اپنے فضل سے جزا دے۔ یقیناًوہ کافروں
کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
سلف صالح کو اس فرق کا پورا شعور تھا اور وہ یہ بھی خوب جانتے
تھے کہ شریعت کی پیروی سے آگے بڑھ کر شریعت کے نفاذ میں اس فرق کا لحاظ ضروری ہے۔
مقاصد شریعت کی تحصیل مطلوب ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ مقصد تخلیق جن آزادیوں کا
تقاضا کرتا ہے ان کو پامال نہ کیا جائے۔ خدا کی شریعت کو اسلام نہ قبول کرنے والوں
پر جبراً نافذکرنے سے احتراز اس لئے ضروری ہے کہ اسلام قبول کرنے یا نہ کرنے کی
آزادی باقی رہے۔ اسلام نہ لانے والوں کو آزادی ہے کہ وہ اللہ کے قانون کی جگہ
اپنا قانون بنائیں۔ اس کا انجام برا ہوگا جس سے انہیں آگاہ کردیا گیا ہے مگر
انہیں بزور قوت اسلامی شریعت کا پابند نہیں بنایا جائے گا۔
جیسے فرشتوں کو تعجب ہوا تھا اسی طرح بہت سے نیک نیت مسلمانوں
کو بھی یہ خیال ہوتا ہے کہ دنیا میں صلاح وخیر کو بزور قوت قائم کیا جاسکتا ہے اور
حق کو نہ پہچاننے اور نہ قبول کرنے والوں کو بزور قوت اسلامی شریعت کے خلاف اپنے
معاشی، سیاسی، سماجی طریقوں پر عمل پیرا ہونے سے روکا جاسکتا ہے تو ایسا کیوں نہ
کیا جائے۔ چنانچہ بعض اسلامی گروہ اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ انسانوں کو خدا کا بندہ
بن کر رہنے پر مجبور کریں۔یہ موقف درست نہیں ہے۔
اسی طرح بعض لوگ جو کسی ایک مسلک سے وابستہ ہوتے ہیں دوسرے
مسلک سے وابستہ لوگوں کو برسر غلط مان کر ان کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں اور اگر وہ
بدلنے پر نہ آمادہ ہوں تو ان کے خلاف کارروائیاں کرنے کو صحیح سمجھتے ہیں یہ موقف
بھی غلط ہے۔
کچھ مسلمان یہ رویہ ان لوگوں سے تعامل میں اختیار کرتے ہیں جو
اسلام کے دائرہ سے باہر ہیں تو کچھ مسلمان ایسے بھی ہیں جو یہی رویہ دوسرے
مسلمانوں کے بارے میں اختیار کرتے ہیں۔ وہ جو اپنے ہی مسلک کو سچا
اسلام سمجھتے ہیں کسی دوسرے مسلک کو غیر اسلام سمجھ کر اسے نیست ونابود کرنے کے
درپے ہوجاتے ہیں، اس کے پیرووں پر حملے کرتے ہیں ان کی مسجدوں، مدرسوں وغیرہ کو
تشدد کا ہدف بناتے ہیں۔ ان سب کاروائیوں کا جواز وہ زمین سے فساد دور کرنے اور
اصلاح حال میں بیان کرتے ہیں۔ بعض لوگ ازالۂ منکر اور امر بالمعروف کے فریضہ کا
بھی سہارا لیتے ہیں۔
Comments
Post a Comment