سورۃ الناس اور پناہ الہی کا تصور دراصل ہے کیا ؟؟؟

 سورہ الناس اور اللہ کی پناہ

قرآن مجید کی یہ خوبصورتی ہے کہ وہ دنیا مے مشکل ترین نطریات کو بھی انتہائی سادہ اور مختصر زبان میں بیان کرتا ہے تاکہ عام سی سمجھ بوجھ کا انسان بھی آسانی کے ساتھ ان کو سمجھ سکے۔ اس سورۃ میں ہم دو بنیادی سوالوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

جب ہم اللہ رب العزت کی پناہ کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد کیا ہے ؟؟ 

اور اللہ رب العزت جب کسی بندے کو پناہ دیتا ہے تو یہ نظام کیسے کام کرتا ہے ؟؟ 

سورہ الناس میں اللہ رب العزت ہمیں سکھاتے ہیں کہ ہم اس کے تین صفاتی ناموں کو پکار کر اس کی پناہ مانگیں۔ یہ تینوں صفاتی نام اپنے افعال کے اعتبار سے بہت ہی اہم ہیں ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت اپنے تین تین صفاتی ناموں کو پکار کر ایک چیز سے بچنے کی تلقین کر رہا ہے ایک برائی سے پناہ مانگنا سکھا رہا ہے ۔۔ اس سے یہ بات تو آسانی سے سمجھ آ رہی ہے کہ وہ برائی کتنی بڑی ہو گی اور کتنی خطرناک ہو گی جس کے لیے اللہ رب العزت کو اپنے تین ناموں کے ذریعے پناہ مانگنا سکھانا پڑا۔ 

نوٹ: سورۃ خلق میں اللہ رب العزت نے ایک صفت بیان کی اور تمام برائیوں کے ساتھ حسد اور جادو ٹونے سے پناہ مانگنا سکھایا ۔ اس سورہ میں ایک برائی اور تین صفات۔ بڑا عجیب سا نہیں لگتا کہ ایسا کیوں ہے ۔ دراصل سورۃ خلق میں جتنی  برائیوں کا ذکر ہوا ہے وہ سب بیرونی ہیں جیسے کہ حسد، ، جادو ٹونا کرنے والے ، تمام پیدا کی گئی برائیاں یہ سب انسان پر باہر سے حملہ کرتی ہیں ۔ لیکن سورۃ الناس میں جس برائی کا ذکر ہے وہ داخلی برائی ہے وہ اندر سے حملہ کرتی ہے اس کا مرکز دل و دماغ ہے ۔ انسانی سوچ ہے جب انسانی سوچ میں خلل آئے گا تو اس کے تمام اعمال و افعال میں خلل آجائے گا ۔ انسانی سوچ اچھے سے اپنا کام کرے گی تو تمام اعمال و افعال اچھے سے کام کریں گے۔ 

بنیادی نکات سمجھ جانے کے بعد ہم اجمالی طور پر ان اعمال و افعال کا ذکر کرتے ہیں جو انسانی سوچ کا محور ہیں ۔ جو کسی بھی انسان کی سوچ کو بنانے میں بنیادہ کردار ادا کرتے ہیں ۔  

یہ سورہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اس کے احکام کے مطابق گزاریں اور اس کی ہدایت پر عمل کریں۔

تین صفاتی نام

 **رب (Rabb):**.1

   اللہ فرماتا ہے، "میں رب ہوں۔" رب کا مطلب ہے وہ جو ہماری بنیادی ضروریات مثلاً کھانا، کپڑا، اور رہائش فراہم کرتا ہے۔ یہ لقب اللہ کے سب سے بڑے فراہم کرنے والے اور پالنے والے ہونے کا اظہار کرتا ہے۔یہ صفت اس لیے بیان کی کیونکہ  اس کے برعکس، سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام اکثر یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کی ضروریات پوری کر رہے ہیں اور خود کو "رب" سمجھتے ہیں۔دنیا کے بنائے ہوئے نظام دن رات لوگوں کو بھوک کے خوف سے اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں ۔ اس نظام کے گماشتے دن رات اس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ دیکھو تمہارا پالنہار یہ نظام ہے جب یہ نظام نہیں تھا تم تو بادشاہوں اور مذہبی لوگوں کے غلام تھے مذہب تو ایک افیون ہے جو انسانوں کے دماغ بند کر دیتی ہے ۔اب سرمایہ دار کہتا ہے چونکہ دولت سب خرید سکتی ہے تو میں رب ہوا سوشلسٹ کہتا ہے کہ یہ لوگوں کو پیسے کے زور پر خرید کر اپنا غلام بنا رہا ہے آو ہم برابری کی بنیاد پر تم کو ایک جیسا روٹی کپڑا مکان دیتے ہیں  ایک عام انسان دن رات ایسی مباحث سن رہا ہے۔اس کے خیالات اتنے پراگندہ ہو چکے ہیں وہ اصل رب کو کھو چکا ہے اس کو ایسے ایسے نظریات ، عقل و شعور کے نام پر پڑھائے جا چکے ہیں کہ وہ اصل کو لیکر پریشان حال ہو چکا ہے اور یہ بات باور کر چکا ہے کہ انسانی نظام ہی دراصل رب ہیں ۔ اس لیے اس سورۃ میں سب سے پہلے اللہ رب العزت نے اپنی ربوبیت کی صفت کا اظہار کیا کہ اپنے اصل رب کی پناہ میں آ جاو۔ 

**مالک (Malik):**2.

   اللہ کا دوسرا صفاتی نام "مالک" ہے، جو اس کی حکمرانی اور تمام مخلوقات پر اس کی قدرت کو ظاہر کرتا ہے۔ زمینی حکمرانوں اور نظاموں کی طرح نہیں جو دوسروں پر طاقت کا دعوی کرتے ہیں، اللہ کی حکمرانی کامل اور عادل ہے۔ اللہ رب العزت کی یہ صفت بہت ہی بڑی اور اہم ہے اس حوالہ سے اور سورۃ میں اس کا ذکر بھی اپنی خاص اہمیت رکھتا ہے ۔ تاریخ انسانی نے حکمرانی اور بادشاہت کے نام پر کیسے کیسے نمونے جھیلے ہیں ۔ جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اس وقت بھی جمہوریت کے نام پر کیسے کیسے بیہودہ، بدعنوان ، ذہنی طور پر مفلوج شخص دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر دنیا کی خودساختہ عالمی طاقت امریکہ کا صدر جوبائیڈن جو کہ ایک بیاسی سالہ شخص ہے اور اس کو نسیان یعنی بھول جانے کی بیماری ہے وہ اسرائیل کے نیتن یاہو کو جو دن رات غزہ میں بچوں کہ یہ کہہ کر مار رہا ہے کہ وہ کل کو بڑے ہو کر دہشت گرد بنیں گے اور دنیا کے کتنے ممالک میں وہ خواتیںن و مرد حضرات حکمران ہیں جو اپنی جنس کے لوگوں سے جسمانی تعلقات رکھتے ہیں مطلب کیسے کیسے برصغیر کا اس سے بھی زیادہ برا حال ہے یہاں کے حکمران خود کو جاہل ان پڑھ سمجھ کر فخر کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود بہت سی سیاسی نظریات، بشمول سرمایہ دارانہ اور اشتراکی ریاستیں، خود کو اعلیٰ حکام کے طور پر پیش کرتی ہیں، امن اور خوشحالی کا وعدہ کرتی ہیں۔ کیا انسان کو بادشاہت کا حقیقی معنی سمجھ آ رہا ہے یا یہ خواہشوں کے غلام ، خود ساختہ دانشور ہم کو سمجھائیں گے کہ ان لوگوں کو چنو۔ یہ تماہاری تقدیر بدل دیں گے ۔ حاصل گفتگو جو خود ناقص ہیں ، ان کی حکمرانی ناقص اور محدود ہے جبکہ اللہ کی حکمرانی مطلق اور عدل پر مبنی ہے۔

 **الٰہ (Ilah):**3

   آخر میں، وہ اپنے آپ کو "الٰہ" کہتا ہے، جو کہ حقیقی معبود ہے جس کی عبادت اور اطاعت کی جاتی ہے۔ ملحدین اور سیکولر لوگ اکثر کسی بھی معبود کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور خود کو اعلیٰ اختیار سمجھتے ہیں۔ وہ انسانی عقل اور نظام کو سب سے بڑا سمجھتے ہیں، الٰہی ہدایت کی ضرورت کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ سورہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ صرف اللہ ہی عبادت کے لائق ہے اور  حقیقی ہدایت صرف اسی سے آتی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام نے کہا کہ نہیں پیسہ ہی سب ہے اس لیے وہ الہ ہوا پوری نسل انسانی کو پیسے کی پوجا میں لگا دیا اب انسان اپنے ہر دکھ درد اور خوشی کا محور پیسے کو مانتا ہے اس کو پوجتا ہے اس میں  پناہ ڈھونڈتا ہے ۔اشتراکی نظام نے کہا کہ انسان کی بچت برابری کے اصول میں ہے اس کو الہ مان لو تو نسل انسانی تباہی سے بچ جائے گا ۔ دونوں دعووں نے انسان کو سوائے پریشانی، مایوسی ڈپریشن کے سوا کیا دیا جتنا آج کا انسان پریشان حال اور تنہا ہے تاریخ انسانی میں کبھی اتنا پریشان حال اور تنہا نہیں تھا اس کی بینادی وجہ ہی انسانی الہ ہیں ۔ جنہوں نے انسانی نظریات کو پراگندہ کر کے اپنی خواہشوں کے غلام بنا دیے ہیں اور ان خواہشوں کو پوجتے پوجتے انسان خودکشیاں کر رہے ہیں ہر طرف ایک قتل و غارت کا سماں ہے انسان انسان کے خون کا پیاسا ہے کہیں ملکی سالمیت اور قومیت کے نام پر کہیں رنگ و نسل کی بنیاد پر ۔ یہ ہے وہ نقائص جن کی وجہ سے اللہ رب العزت کہتا کہ اپنے حقیقی الہ کی پناہ میں آ جاو ۔ 

وسوسہ اور وہم کیا ہے ؟؟

وسوسہ اس گمراہ خیال کو کہا جاتا ہے جو انسان کے دل میں باربار پیدا کیا جائے اور تب تک پیدا کیا جائے جب تک وہ اس کا  قائل نہ ہو جائے اور اس پر پختہ نہ ہو جائے ۔اس لیے اللہ رب العزت اس کو ایسے شر تعبیر کر رہے ہیں جس سے پناہ بہت ضروری ہے ۔ چونکہ یہ ایک داخلی اور اندرونی فعل ہے اس لیے یہ نظر بھی نہیں آتا اور یہ مکمل طور پر انسانی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے اس کے مقصد حیات کو بھلا کر اس کو فضولیات میں مشغول کر دیتا ہے اس لیے اس وسوسہ کو بیان کرنے سے پہلے اس کے جو جو بھی ماخذ تھے اللہ رب العزت نے بیان کر دیے کہ یہ جو تم کو بھوک اور بیماری سےڈرا کر، لالچ اور خوف کے تابع رکھ کر تم پر حکمرانی کرنے والے، اور تم کو جھوٹی الوہیت کے تابع فرمان کرنے والے ہیں ان سب سے میری پناہ میں آ جاو۔ 

 وسوسے کا مرکز کیا ہے۔وسوسہ پیدا کیسے ہوتا ہے؟

اللہ رب العزت نے صدور کا لفظ استعمال کیا ہے عربی زبان میں صدر ابتدائی حصے، قوم کے سردار، انسانی سینے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ اللہ رب العزت نے صدر کی جمع صدور کو استعمال کر کے تینوں مفاہیم کو اکٹحا کر دیا مطلب انسانی ابتدائی حصہ یعنی اس کا دماغ ، پھر اس کا سینہ، اور قوم کے سردار یعنی وہ تمام دانشور اور راہنما اور حکمران ان تمام میں وسوسے پروان چڑھتے ہیں اور چڑھائے جاتے ہیں اور یہ سب کرنے والے کون انسان و جن، جو پوشیدہ طور پر یہ کام کرتے ہیں ۔ پوشیدہ سے مطلب کیا وہ چھپ کر کام کرتے ہیں ہاں جی۔ ایک لکھنے والا جب بار بار یہ لکھے گا کہ پیسہ سب سے بڑی طاقت ہے پیسے سے آپ دنیا کا ہر کام کر سکتے ہیں ، پیسے کے بغیر انسان کا زندہ رہنا ایسے ہی ہے جیسے جانور، ایک بندہ سارا دن سٹیج پر کھڑا ہو کر لوگوں کو ایک ہی بات باربار سکھا رہا ہے کہ کوئی ہنر سیکھو نہیں تو بھوکے مر جاو گے یا بیماریوں کا علاج کے پیسے نہیں ہوں گے بجلی پانی گیس کے بل کہاں سے دو گے۔ پیسہ نہیں ہو گا تو گھر گاڑی کہاں سے خریدو گے یہ نہیں ہو گا تو کون تم سے شادی کرے گا۔

انسان نے کس طرح سہولیات کے نام پر انسان کو غلام بنا لیا ہے کبھی غور تو کر کے دیکھیں ۔ لاکھوں انسانوں نے محنت کر کے انسان کی آسانی کے لیے نت نئی چیزیں ایجاد کیں تاکہ انسان اچھی زندگی گزار سکے اس پر چند انسانوں کے قبضہ کر کے اپنی زندگی اچھی بنا لی اور باقی لوگوں کی زندگی جہنم بنا دی ۔ دنیا میں بجلی انسان کے بنیادی حق میں شامل ہو چکی ہے کہ سورج کی روشنی کو استعمال کر کے پوری نسل انسانی کو سستی بجلی فراہم نہیں کی جاسکتی ۔ اس کی بجائے لوگ انتہائی مہنگے بل دے رہے ہیں اور امریکہ کی سیکرٹری خزانہ چین جا کر کہتی ہے کہ آپ نے اتنے زیادہ سولر پینل بنا دیے ہیں کہ دنیا کے باقی ممالک اس کا مقابلہ نہیں کر پا رہے ۔ اس سے سمجھ آ رہی ہے کہ یہ جو دانشور دن رات ہم کو سرمایہ دارانہ نظام پڑھا رہے ہوتے ہیں اس کے فوائد گنوا رہے ہوتے ہیں وہ دراصل کیسے ہم کو ساری زندگی بلوں کے چکر میں ڈال رہے ہوتے ہیں ۔ انسان کو مرضی سے ننگا ہونے ، گندا کھانا کھانے کا حق دینے یا کورٹ سے اجازت لیکر خود کشی کرنے یا جب جس سے چاہو ہمبستری کر لو اور حاملہ ہو جانے پر چھوڑ جانے کو ہم انسانی حقوق کہتے ہیں ۔۔ یہ ہیں وہ رب یا مالک یا الہ جن کی پیروی کرنے جن کی اطاعت کرنے کا باشن دیتے ہیں    

دنیاوی نظام کیسے انسان کو دھوکا دے رہے ہیں ؟؟

دنیاوی نظام، چاہے وہ سرمایہ دارانہ، اشتراکی، یا سیکولر ہوں، اکثر اپنے آپ کو سب سے بڑے فراہم کرنے والے اور محافظ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ انسانی ضروریات اور مسائل کا حل فراہم کرنے کا دعوی کرتے ہیں، اور خود کو الٰہی اختیار کا متبادل سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر:

سرمایہ دارانہ نظام: یہ دعوی کرتا ہے کہ لوگوں کو معاشی ترقی اور مارکیٹ کے اصولوں کے ذریعے کھانا اور ضروریات فراہم کی جاتی ہیں۔ ان کا محور و مرکز پیسہ ہے ان کا رب، مالک، الہ سب پیسہ ہے۔ وہ غربا اور محروم لوگوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔  

اشتراکی نظام: برابری اور ریاستی کنٹرول کے ذریعے وسائل کی تقسیم کا وعدہ کرتا ہے۔ اگرچہ یہ برابری کی کوشش کرتا ہے، لیکن یہ نظام بھی ظالمانہ ہو سکتے ہیں اور افراد کی آزادی کو محدود کر سکتے ہیں۔کیا آپ تمام انسانوں کو برابر کر سکتے ہیں مختلف خطوں اور نسلوں میں بٹے لوگوں کو کیسے ایک نظام کے تابع کر سکتے ہیں جو ان کی ضروریات کو بس ایک جیسا کر دے۔ 

سیکولر اور ملحد نظریات: کسی الٰہی طاقت کا انکار کرتے ہیں اور انسانی عقل اور حکومت کو کافی سمجھتے ہیں۔ وہ اخلاقی نسبیت اور اخلاقی الجھن کی طرف لے جاتے ہیں۔سیکولر بیچاروں کو پتہ ہی نہیں کہ کیسے ان کے ساتھ ان کی زندگیوں کا سب سےبڑا دھوکا ہو رہا ہے کہ کچھ نہیں سے کچھ ہو گیا۔ بس ایسے ہی ایک بڑا دھماکہ ہوا اور حادثاتی طور پر ایک دنیا کا جنم ہو گیا ۔ اس سے زیادہ فضول بات آپ نے کبھی سنی ہو گی ایک بندہ پہلے بتائے کہ یہ کائنات کتنی مکمل ہے کہ ایک سیکنڈ کا ہزاروں حصہ بھی اس کی رفتار میں کمی آ جائے تو یہ دوبارہ آپس میں جڑ جائے یا زیادتی ہو جائے تو یہ بکھر جائے اور اس سے پوچھو اتنی مکمل کائنات کا وجود کیسے پیدا ہوا اور وہ کہے حادثاتی طور پر اور اب اربوں سال سے یہ حادثاتی عمل اپنی پوری اکملیت و جامیعت کے ساتھ چلتا جا رہا ہے ۔ 

 اللہ کی پناہ

اللہ کی پناہ سے اصل مراد اس کے نظام کے تابع آجانا ہے تاکہ وہ ان جھوٹے ربوبیت کے دعوی داروں ، بادشاہوں اور معبودوں سے انسان کو بچائے ۔ ان کو اصل میں انسان کی فلاح و بہبود پر تعینات کرے ناکہ وہ پوری نسل انسانی کو اپنی خواہشوں کو پورا کرنے والے غلام بنا لیں ۔ 

یہ سورہ اللہ کی پناہ مانگنے کی تلقین کرتی ہے، ان نقصانات اور وسوسوں سے بچنے کے لئے جو شیطان اور خوف اور گمراہی پھیلانے والے لوگوں کے ذریعے آتے ہیں۔ ان میں شامل ہیں:

- **مادی لالچ:** سرمایہ دارانہ اور اشتراکی وعدے کہ مادی دولت اور ریاستی فراہمی ہی حتمی مقصد ہیں۔

- **عقلی غرور:** ملحد اور سیکولر دعوے کہ صرف انسانی عقل ہی سب کچھ حاصل کر سکتی ہے۔

اللہ کی صفات کو پکار کر، مومنوں کو یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ایمان میں مضبوط رہیں اور الٰہی احکام پر عمل کریں، اور سمجھیں کہ حقیقی امن، فراہمی، اور انصاف صرف اللہ سے آتے ہیں۔

نتیجہ

سورہ الناس ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ کی پناہ میں آنا چاہیے، اسے اپنا رب، مالک، اور الٰہ تسلیم کرنا چاہیے۔ یہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہم اس کے احکام کے مطابق زندگی گزاریں اور دنیاوی نظاموں کے جھوٹے وعدوں سے بچیں۔ اللہ پر بھروسہ کرکے اور اس کے الٰہی اصولوں کے مطابق زندگی گزار کر، ہم حقیقی امن اور سکون حاصل کرتے ہیں، جو سرمایہ دارانہ، اشتراکی، اور سیکولر نظریات کے جھوٹے خوف اور گمراہی سے آزاد ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

List of Gujjar Clans

List of Famous Gujjar and Bureaucrats

The history Of Various Gujar clans