Tuesday 17 June 2014

پاکستان میں مارشل لاء

کہیں پاکستان میں مارشل لاء کا راستہ تو صاف نہیں کیا جا رہا؟؟؟ پہلے انڈیا پھر ایران اور اب افغانستان کی حملہ کی دھمکی، ایک طرف کراچی آپریشن تو دوسری طرف شمالی وزیرستان پر آرمی کا حملہ، بلوچستان میں لیویز کا آپریشن تو لاہور میں عوامی تحریک اور پولیس بر سرِ پیکار۔۔۔ آخر ہم کو کون سے گناہوں کی سزا مل رہی ہے قرآن مجید کی آیتِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جب کوئی قوم اپنی سرکشی میں حد سے بڑھ جاتی ہے تو ہم ان میں آپس میں پھوٹ ڈال دیتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔۔۔ ہر طرف پاکستانی ہی پاکستانیوں کو مار رہے ہیں۔۔ ہم کیوں نہیں سمجھ جاتے اس بات کو کہ معاشرے کفر پر تو قائم رہتے ہیں پر ظلم پر قائم نہٰیں رہتے۔۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ہم کو مسجد میں اپنے گناہوں کی معافی سے زیادہ اپنے جوتوں کی فکر ہوتی ہے۔۔ اتنے ظالم ہیں ہم کہ ہم کو پتا ہے ہمارا باپ،بھائی،رشتہ دار یا پھر دوست حرام کماتا ہے ٹیکس چور  یا رشوت لیتا ہے اور بڑے فخر سے کہتے ہیں ماشاءاللہ بہت تھوڑے عرصے میں بہت ترقی کی ہے اس نے اللہ تعالیٰ اور ترقی دے اس کو۔۔ ہم حلال و حرام کے فرق کو بھول بیٹھے ہیں۔۔۔ دنیا میں دو ہی چیزیں ہیں یا وہ حلال ہوتی ہیں یا حرام۔۔ مثلا نماز کا پڑھنا حلال اور چھوڑنا حرام،سچ بولنا حلال اور جھوٹ بولنا حرام، اپنے ہاتھ سے کمانا حلال طریقہ سے اور رشوت کا لینا حرام، نکاح حلال اور گرل فرینڈ/ بوائے فرینڈ حرام ۔۔۔ انصاف کرنا حلال اور اس کو جان بوجھ کر لٹکانا حرام، جب کسی معاشرے میں یہ فرق مٹ جائے تو وہ معاشرہ قائم نہیں رہتا۔۔۔ ہم نے تو حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا دیا ہے۔۔ ہم پیسے کے پجاری ہوس ذدہ لوگ ہیں اپنے اپنے مفادات کو غلام ہم کو سکون کہاں سے ملے گا ۔۔ ہماری بستیاں کیسے خوشحال ہو سکتی ہیں۔۔ ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اس میں کسی کا کوئی قصور نہٰیں، جس قوم کے عالم بے عمل، حکمران مفاد پرست اور عوام بے حس ہوں ان قوموں کا یہی حال ہوتا ہے جو ہمارا ہے ہر طرف ایک آگ کا دریا ہے اور اس میں سے کود کے ہی جانا ہے۔ خدارا اب بھی نہ سمجھے ہم تو کب سمجھیں گے کہ معاشرے کفر پر قائم رہ سکتے ہیں ظلم پر نہیں۔ ہم کو اپنی آنکھوں سے سیاسی، سماجی، معاشرتی، مذہبی، مسلکی ٹھیکیداروں کی باندھی ہوئی پٹیاں اتارنی ہوں گی کیونکہ یہ سب ایک ہی چکی کے پاٹ ہیں۔ سب اپنی اپنی خواہشوں کے غلام اور ہر بندہ اپنی ذات میں عقلِ کل۔۔۔۔
چودھری ظفر حبیب گجر

No comments:

Post a Comment