Gujjar History 6
قسط 6
اسلام علیکم۔۔۔ ایک غلطی فہمی کی تصحیح (میری ذاتی رائے میں) اہل اسلام نے اہل عرب و عجم کو ایک الگ گروہ لکھا ہے اور یورپین نے اس کو الگ گروہ تسلیم نہیں کیا۔۔ اصل میں ہوا یہ ہو گا کہ حضرت نوحؑ اور ان کے ساتھ مسلمانوں کا ایک گروہ (چوتھا گروہ) شام میں ہی بس گیا ہو گا جس سے اہل عرب و عجم نے جنم لیا اور اس گروہ میں ہر طرح کے رنگ و نسل کے لوگ موجود ہوں گے اس لیے اگر ہم عرب کے رنگ و نسل کا جائزہ لیں تو ہم کو پتہ چلتا ہے کہ اس میں نیگرو اور کاؤکشین دونوں نسلوں سے ملتے جلتے لوگ ہیں کہ بعض اوقات لگتا ہے کہ یہ نیگرو نسل ہے اور بعض اوقات لگتا ہے کہ نہیں یہ کاوکشین نسل سے ہیں۔۔۔
ہمارے آباء و اجداد جس خطے میں جا کر آباد ہوئے وہ آجکل سنٹرل ایشیاء اور یوریشیاء کہلاتا ہے اور نیگرو ہندوستان اور افریقہ کی طرف آباد ہوئے اگر سب سے قدیم ہندوستان کی آبادی کو دیکھیں اور افریقین نسلوں کو دیکھیں تو ان میں رنگ و نسل کی مماثلت پائی جاتی ہے۔۔
جیسے جیسے ان خطوں میں آبادیاں بڑھنا شروع ہوئیں تو نئے نئے علاقے آباد ہونا شروع ہو گئے ۔۔ ہم نے سارے سنٹرل ایشیاء ، یوریشیاء اور چائنا کے صوبے سنکیانگ تک کے علاقے آباد کیے دوسری طرف ہم یورپ کو آباد کر رہے تھے جس میں بلغاریہ، چیچنیا، رومانیہ، آرمینیاء اور دوسرے آس پاس کے علاقے شامل تھے۔۔ اور تیسری طرف ہم عراق، ترکستان اور ان علاقوں کی طرف پھیلتے جا رہے تھے جیسے جیسے آبادی کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا ویسے ویسے آپسی لڑائیاں بڑھتی جا رہی تھیں اور نئے علاقوں کی دریافت کی ضرورت بڑھتی جا رہی تھی۔۔ ہماری ایک نسل نے شاہراہِ ریشم جیسا عظیم راستہ دریافت کیا اور اسی راستے سے بڑھتے ہوئے ہندوستان تک آ پہنچے۔۔ انہوں نے سمرقند اور بخارا جیسے عظیم شہروں کو آباد کیا۔۔ اور اسی طرح سارے شمالی ہندوستان پر قابض ہو گئے اور ہندوستان کی قدیم اقوام کو جنوب مشرق کی طرف دھکیل دیا (سری لنکن اور انڈیا کے بعض قبائل کو دیکھ کر آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ رنگ و نسل میں کتنا فرق ہے ) پھر سکندرِاعظم کا وقت آیا تو وہ بھی اسی راستے سے ہندوستان تک پہنچا۔۔ وہ بھی دراصل کاؤکشین نسل تھا لیکن اس کی ساری لڑائی بھی کاؤکشین نسل سے ہی ہے اس لیے کچھ تاریخ دان اس سے گجر نسل کے ابتداء کی بات کرتے ہیں اور کچھ اس سے لڑائیوں کا ذکر کرتے ہیں۔۔ یہ اصل میں ایک ہی نسل کے لوگوں کی آپس میں طاقت کی جنگ تھی۔۔۔ صرف عجم میں ہونے والی اس کی جنگیں دوسرے کسی گروہ کے ساتھ تھیں۔۔
سکندر کے بعد گجروں کے جس قبیلے نے سب سے بڑی حکومت قائم کی شمالی ہندوستان میں وہ کوشان کہلائے ، اسی وقت چائنا کی طرف گجر قبیلہ یو آچی حکمران تھا اور تیسری طرف سے گجر قبائل عرب سے ہوتے ہوئے ایران میں داخل ہو چکے تھے جو کہ ساکا کہلائے اور وہ درہ بولان سے بلوچستان اور وہاں سے سندھ میں داخل ہوئے اور گجرات (آنڈیا) تک پھیلتے چلے گئے اب جو گجر قبائل شاہراہ ریشم سے ہوتے داخل ہوئے وہ کوہ ہندو کش اور کو ہ ہمالیہ اور کوہ قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کے ساتھ پھیلتے چلے گئے کیونکہ وہ سرد ماحول کے عادی تھے اور وہاں سے وسطی ہندوستان کی طرف بڑھنا شروع ہوئے اور جو قبائل درہ بولان سے آئے تھے چونکہ وہ گرم ماحول کو برداشت کرنے کے عادی ہو گئے تھے اس لیے وہ ان علاقوں کو فتح اور آباد کرتے ہوئے وسطی ہندوستان کی طرف بڑھے۔۔
باقی اگلی اقساط میں انشاء اللہ
چودھری ظفر حبیب گجر
اسلام علیکم۔۔۔ ایک غلطی فہمی کی تصحیح (میری ذاتی رائے میں) اہل اسلام نے اہل عرب و عجم کو ایک الگ گروہ لکھا ہے اور یورپین نے اس کو الگ گروہ تسلیم نہیں کیا۔۔ اصل میں ہوا یہ ہو گا کہ حضرت نوحؑ اور ان کے ساتھ مسلمانوں کا ایک گروہ (چوتھا گروہ) شام میں ہی بس گیا ہو گا جس سے اہل عرب و عجم نے جنم لیا اور اس گروہ میں ہر طرح کے رنگ و نسل کے لوگ موجود ہوں گے اس لیے اگر ہم عرب کے رنگ و نسل کا جائزہ لیں تو ہم کو پتہ چلتا ہے کہ اس میں نیگرو اور کاؤکشین دونوں نسلوں سے ملتے جلتے لوگ ہیں کہ بعض اوقات لگتا ہے کہ یہ نیگرو نسل ہے اور بعض اوقات لگتا ہے کہ نہیں یہ کاوکشین نسل سے ہیں۔۔۔
ہمارے آباء و اجداد جس خطے میں جا کر آباد ہوئے وہ آجکل سنٹرل ایشیاء اور یوریشیاء کہلاتا ہے اور نیگرو ہندوستان اور افریقہ کی طرف آباد ہوئے اگر سب سے قدیم ہندوستان کی آبادی کو دیکھیں اور افریقین نسلوں کو دیکھیں تو ان میں رنگ و نسل کی مماثلت پائی جاتی ہے۔۔
جیسے جیسے ان خطوں میں آبادیاں بڑھنا شروع ہوئیں تو نئے نئے علاقے آباد ہونا شروع ہو گئے ۔۔ ہم نے سارے سنٹرل ایشیاء ، یوریشیاء اور چائنا کے صوبے سنکیانگ تک کے علاقے آباد کیے دوسری طرف ہم یورپ کو آباد کر رہے تھے جس میں بلغاریہ، چیچنیا، رومانیہ، آرمینیاء اور دوسرے آس پاس کے علاقے شامل تھے۔۔ اور تیسری طرف ہم عراق، ترکستان اور ان علاقوں کی طرف پھیلتے جا رہے تھے جیسے جیسے آبادی کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا ویسے ویسے آپسی لڑائیاں بڑھتی جا رہی تھیں اور نئے علاقوں کی دریافت کی ضرورت بڑھتی جا رہی تھی۔۔ ہماری ایک نسل نے شاہراہِ ریشم جیسا عظیم راستہ دریافت کیا اور اسی راستے سے بڑھتے ہوئے ہندوستان تک آ پہنچے۔۔ انہوں نے سمرقند اور بخارا جیسے عظیم شہروں کو آباد کیا۔۔ اور اسی طرح سارے شمالی ہندوستان پر قابض ہو گئے اور ہندوستان کی قدیم اقوام کو جنوب مشرق کی طرف دھکیل دیا (سری لنکن اور انڈیا کے بعض قبائل کو دیکھ کر آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ رنگ و نسل میں کتنا فرق ہے ) پھر سکندرِاعظم کا وقت آیا تو وہ بھی اسی راستے سے ہندوستان تک پہنچا۔۔ وہ بھی دراصل کاؤکشین نسل تھا لیکن اس کی ساری لڑائی بھی کاؤکشین نسل سے ہی ہے اس لیے کچھ تاریخ دان اس سے گجر نسل کے ابتداء کی بات کرتے ہیں اور کچھ اس سے لڑائیوں کا ذکر کرتے ہیں۔۔ یہ اصل میں ایک ہی نسل کے لوگوں کی آپس میں طاقت کی جنگ تھی۔۔۔ صرف عجم میں ہونے والی اس کی جنگیں دوسرے کسی گروہ کے ساتھ تھیں۔۔
سکندر کے بعد گجروں کے جس قبیلے نے سب سے بڑی حکومت قائم کی شمالی ہندوستان میں وہ کوشان کہلائے ، اسی وقت چائنا کی طرف گجر قبیلہ یو آچی حکمران تھا اور تیسری طرف سے گجر قبائل عرب سے ہوتے ہوئے ایران میں داخل ہو چکے تھے جو کہ ساکا کہلائے اور وہ درہ بولان سے بلوچستان اور وہاں سے سندھ میں داخل ہوئے اور گجرات (آنڈیا) تک پھیلتے چلے گئے اب جو گجر قبائل شاہراہ ریشم سے ہوتے داخل ہوئے وہ کوہ ہندو کش اور کو ہ ہمالیہ اور کوہ قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کے ساتھ پھیلتے چلے گئے کیونکہ وہ سرد ماحول کے عادی تھے اور وہاں سے وسطی ہندوستان کی طرف بڑھنا شروع ہوئے اور جو قبائل درہ بولان سے آئے تھے چونکہ وہ گرم ماحول کو برداشت کرنے کے عادی ہو گئے تھے اس لیے وہ ان علاقوں کو فتح اور آباد کرتے ہوئے وسطی ہندوستان کی طرف بڑھے۔۔
باقی اگلی اقساط میں انشاء اللہ
چودھری ظفر حبیب گجر
Comments
Post a Comment